ايك جماعت نے كچھ مال جمع كيا تا كہ ممبران ميں سے كسى كو بھى مصيبت كے وقت ديا جا سكے، مثلا قتل خطا كى ديت وغيرہ، اور يہ مال انہوں نے تجارت ميں لگا ديا تا كہ اس كى سرمايہ كارى ہو سكے، اور اس كا منافع ان خيراتى كاموں ميں صرف ہو جس پر اتفاق كيا گيا ہے، تو كيا اس رقم ميں زكاۃ واجب ہو گى يا نہيں ؟
اور كيا اس خيراتى فنڈ ميں زكاۃ دى جا سكتى ہے ؟
0 / 0
4,33415/01/2006
كيا سرمايہ كاري ميں لگائے گئے خيراتى مال پر بھى زكاۃ واجب ہے ؟
سوال: 2822
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا سوال ميں مذكور ہے، تو مذكورہ مال ميں زكاۃ نہيں، كيونكہ يہ وقف كے حكم ہے، چاہے وہ مال مجمد ہو يا اسے تجارت ميں لگايا گيا ہو، اور اس ميں زكاۃ دينى جائز نہيں، كيونكہ يہ فقراء و مساكين كے ليے مخصوص نہيں، اور نہ ہى يہ دوسرے كسى مصاريف زكاۃ كے ليے ركھا گيا ہے.
ماخذ:
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 291 )