ہمارا ايك بوڑھا چچا ہے، اور وہ كام بھى نہيں كر سكتا، اس كى اولاد زيادہ ہے، جو كہ ايك گاؤں كے كچے سے ملكيتى مكان ميں رہائش پذير ہے، اور اسى بستى ميں اسے گورنمنٹ كى طرف سے ايك پلاٹ الاٹ ہوا ہے، جہاں وہ اپنى رہائش كے ليے عمارت تعمير كرنا چاہتا ہے.
كيا اس عمارت كى تعمير كے ليے زكاۃ جمع كرنى جائز ہے، اور اگر جائز نہيں تو پھر اس جمع كردہ مال كا كيا جائے ؟
0 / 0
4,95109/10/2011
گھر كى تعمير كے ليے زكاۃ پيش كرنے كا حكم
سوال: 9246
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اس زمين ميں عمارت تعمير كرنے كے ليے زكاۃ جمع كرنى جائز نہيں، كيونكہ اس كے پاس رہائش كے ليے مكان ہے، پھر اگر فرض كريں كہ اس كے پاس كرايہ ادا كرنے كے ليے بھى كچھ نہ ہو تو پھر زكاۃ ميں سے اسے كرايہ پر مكان لے كر دينا جائز ہے، كيونكہ مكان كى تعمير كے ليے بہت زيادہ مال كى ضرورت ہے، اور مسلمانوں ميں سے بہت سے لوگ كھانے پينے سے بھى محتاج ہيں، نہ كہ ذاتى گھر كے.
اور آپ نے جو كچھ جمع كيا ہے ميرى رائے تو يہى ہے كہ وہ ان كے مالكوں كو واپس كر دى جائيں.
شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كا فتوى .
ماخذ:
ماخوذ از: مجلۃ الدعوۃ عدد نمبر ( 1762 ) صفحہ ( 37 )