ہمارے ہاں اسلامى مركز ہے اور ہم سنت نبوى كو پھيلانے اور عام كرنے كى كوشش كر رہے ہيں، لوگوں كو اسلامى اخلاق كى فہم اور سمجھ كى دعوت ديتے ہيں، جنہيں صحابہ كرام نے اپنايا تھا.
ہمارے مركز كے ليے ايك عورت بہت زيادہ مال صدقہ كرنا چاہتى ہے، يہ مركز ہم اپنے خاص مال سے چلا رہے ہيں.
مشكل يہ ہے كہ اس عورت نے دور جاہليت ميں حرام طريقہ سے جمع كيا تھا، اور اب اس نے دين پر عمل شروع كر ديا ہے ( وہ مسلمان گھرانے ميں پيدا ہوئى ليكن اسلامى تعليمات پر عمل پيرا نہيں تھى اور اسى حالت ميں اس نے مال جمع كيا تھا ) تو كيا ہمارے ليے يہ مال مركز ميں استعمال كرنا اور سويڈن ميں دعوتى پروگراموں كى ضروريات پورى كرنى جائز ہيں؟
مولانا صاحب گزارش ہے كہ جواب جلد ديں، كيونكہ بہت جلدى ہے.
ہم نے كچھ رقم تو لے لى ہے ليكن اسے محفوظ ركھا ہے اور خرچ نہيں كيا تا كہ ہم اس مال كا حكم معلوم كر ليں.
اگر ہمارے ليے يہ مال استعمال كرنا جائز نہيں تو پھر وہ عورت اپنا مال كس طرح صرف كرے ؟
0 / 0
6,33017/02/2011
اسلامى مركز كا عورت سے حرام مال كا چندہ قبول كرنا
سوال: 4820
جواب کا متن
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ہم نے يہ سوال فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح عثيمين رحمہ اللہ تعالى كے سامنے پيش كيا تو ان كا جواب تھا:
جى ہاں يہ جائز ہے، كيونكہ يہ مال اس عورت كے ليے حرام ہے، اور دوسرے كے ليے جب وہ اس مال كو صحيح طريقہ پر حاصل كرے تو اس كے ليے حلال ہے، اور آپ لوگ اس سے صحيح طريقہ پر حاصل كرينگے. انتہى .
ماخذ:
الشيخ محمد بن صالح العثيمين