ايك شخص نے زراعتى زمين كرايہ پر حاصل كى، تو كيا اس كى زكاۃ مالك كے ذمہ ہے يا كہ كرايہ دار پر ؟
اور اگر يہ زكاۃ كرايہ دار كے ذمہ ہے تو كيا وہ زمين سے حاصل ہونے والى مكمل آمدنى پر ہو گى، يا كہ كرايہ ادا كر كے باقى مانندہ آمدن پر ؟
زراعت كے ليے اجرت پر حاصل كردہ اراضى كى زكاۃ كس پر ہو گى ؟
سوال: 45623
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر تو زمين كا مالك خود زرعى زمين كاشت كرتا ہے، تو اس سے حاصل ہونے والى آمدن كى زكاۃ بھى مالك كے ذمہ ہے، اور اگر زمين كا مالك زمين كسى دوسرے كو دے يا عاريتا دے كہ وہ اسے كاشت كر لے تو اس سے حاصل ہونے والى آمدن كى زكاۃ كاشت كرنے و الے پر ہو گى.
اہل علم نے كرايہ پر حاصل كردہ زمين كى زكاۃ ميں اختلاف كيا ہے، كہ آيا اس كى زمين مالك كے ذمہ ہے يا كرايہ پر حاصل كرنے والے كاشت كار پر جمہور اہل علم كے ہاں اس كى زكاۃ كاشت كار كے ذمہ ہے، ليكن احناف كے ہاں اس كى زكاۃ مالك كے ذمہ واجب ہے.
ابن حزم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
كھجور، گندم اور جو ميں اس وقت زكاۃ نہيں جب تك كہ وہ ايك فرد كے پاس اور ايك ہى صنف پانچ وسق تك نہ پہنچ جائے، اور وسق ساٹھ صاع كا ہوتا ہے، اور ايك صاع چار مد كا جو كہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا مد جتنا اور ايك مد ڈيڑھ سے سوا رطل مد كے چھوٹا بڑا ہونے كے درميان ہوتا ہے.
چاہے وہ اپنى زمين ميں اس نے كاشت كى ہو يا كسى دوسرے كى زمين ميں زمين غصب كر كے، يا جائز اور ناجائز معاملات كر كے، جب نذ غصب كردہ نہ ہو چاہے وہ زمين خراج والى ہو يا عشر والى.
اور يہ قول جمہور لوگوں كا ہے، اور مالك، شافعى، احمد، اور ابو سفيان رحمہم اللہ نے يہى كہا ہے.
اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
كم ہو يا زيادہ اس كى زكاۃ ادا كرے گا، اور اگر وہ خراج والى زمين ميں ہو تو اس ميں زكاۃ نہيں، اور اگر زمين كرايہ پر ہو تو اس كى زكاۃ زمين كے مالك پر ہے نہ كہ كاشت كار پر.
ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 4 / 47 ).
احناف كے قول كو آئمہ كرام نے رد كرتے ہوئے بيان كيا ہے كہ زكاۃ كى ادائيگى كاشت كار كا حق ہے نہ كہ زمين كا حق جيسا كہ احناف كہتے ہيں.
ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور جس شخص نے زمين كرايہ پر حاصل كر كے كاشت كى تو عشر اس پر ہو گى نہ كہ مالك پر، امام مالك، ثورى، اور شريك، اور ابن مبارك، شافعى اورابن منذر رحمہم اللہ كا يہى قول ہے.
اور ابو حنيفہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: يہ زمين كے مالك پر ہے، كيونكہ يہ اس كے بوجھ ميں سے ہے، لہذا خراج كے مشابہ ہے.
اور ہمارے ہاں يہ ہے كہ: يہ فصل ميں ہے، لہذا فصل كے مالك پر ہو گى جيسے كہ تجارت كے ليے تيار كردہ چيز كى قيمت كى زكاۃ كى طرح، اور اپنى ملكيتى زمين كى فصل كى عشر كى طرح.
اور ان كا يہ كہنا صحيح نہيں: كہ يہ زمين كے بوجھ ميں سے ہے؛ كيونكہ اگر يہ زمين بوجھ اور حق ميں سے ہوتى تو پھر خراج كى طرح كاشت كے بغير بھى واجب ہوتى، اور خراج كى طرح ذمى پر بھى واجب ہوتى، اور پھر اس كا اندازہ زمين كے حساب سے لگايا جاتا نہ كہ فصل كے حساب سے، اور اسے فئى كے مصاريف ميں صرف كرنا واجب ہوتا، نہ كہ زكاۃ كے مصاريف ميں.
ديكھيں: المغنى لابن قدامہ ( 2 / 313 – 314 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے بھى اسے ہى راجح قرار ديا ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 6 / 88 ).
دوم:
اور اس ليے كہ زكاۃ كى ادائيگى كاشت كار كا حق ہے لہذا جب نصاب پورا ہو جائے يعنى پانچ وسق ہو اور ايك وسق ساٹھ صاع ہے، اور نصاب ( 657 ) كلو بنتا ہے تو اسے حاصل ہونے والى سارى آمدنى سے زكاۃ نكالنا ہو گى.
زكاۃ ادا كرنے والے كو يہ حق نہيں كہ وہ اس ميں سے زمين كا كرايہ كم كرے چاہے وہ فصل فروخت كرنے كے بعد ـ جہالت يا غلطى يا تاويل كے ساتھ ـ اور زكاۃ كى ادائيگى سے قبل ہو.
اہل علم كے اقوال ميں سے صحيح قول يہ ہے كہ زمين پر آنے والے خرچ ميں سے كوئى بھى خرچ فصل سے نہيں نكال سكتا.
ابن حزم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
كاشت كار كے ليے جائز نہيں كہ وہ كاشت كرنے يا كٹائى كرنے، يا اسے گاہنے، يا كھجور توڑنے يا كنواں كھودنے كا خرچ شامل كر كے اسے زكاۃ سے نكال دے، چاہے اس نے اس خرچ كے ليے قرض ليا ہو يا قرض نہ ليا ہو، يہ خرچ فصل كى سارى قيمت يا پھل پر آيا ہو يا نہ، اور اس جگہ سلف كا اختلاف ہے …. اس اختلاف كو ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:
ابو محمد رحمہ اللہ كہتے ہيں: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كھجور گندم، اور جو ميں بالجملہ زكاۃ واجب قرار دى كہ جب وہ نصاب پانچ وسق يا اس سے زيادہ ہو جائے تو اس ميں زكاۃ ہے، اور اس ميں سے كاشت كار كا خرچہ اور كھجور كے باغ والے كا خرچ نہيں نكالا اس ليے اللہ تعالى نے جو حق واجب كيا ہے اسے قرآن و سنت كى نص كے بغير ساقط كرنا جائز نہيں ہے، يہ امام مالك، اور امام شافعى اور ابو حنيفہ اور ہمارے اصحاب كا قول ہے.
ديكھيں: المحلى ابن حزم ( 4 / 66 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب