0 / 0
11,42420/01/2005

ابتدائي مہینوں میں اسقاط حمل کروانا

سوال: 42321

ابتدائي ( ایک سے تین ماہ ) مہینوں اوربچے میں روح ڈالے جانے سے قبل اسقاط حمل کا حکم کیا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

کبارعلماء کمیٹی نے مندرجہ ذيل فیصلہ کیا :

1 – مختلف مراحل میں اسقاط حمل جائز نہيں لیکن کسی شرعی سبب اوروہ بھی بہت ہی تنگ حدود میں رہتے ہوئے ۔

2 – جب حمل پہلے مرحلہ میں ہوجوکہ چالیس یوم ہے اوراسقاط حمل میں کوئي شرعی مصلحت ہویا پھر کسی ضررکودورکرنا مقصود ہوتواسقاط حمل جائز ہے ، لیکن اس مدت میں تربیت اولاد میں مشقت یا ان کے معیشت اورخرچہ پورا نہ کرسکنے کےخدشہ کے پیش نظر یا ان کے مستقبل کی وجہ سے یا پھر خاوند بیوی کے پاس جواولاد موجود ہے اسی پراکتفا کرنے کی بنا پراسقاط حمل کروانا جائز نہيں ۔

3 – جب مضغہ اورعلقہ ( یعنی دوسرے اورتیسرے چالیس یوم ) ہوتواسقاط حمل جائز نہيں لیکن اگر میڈیکل بورڈ یہ فیصلہ کرے کہ حمل کی موجودگي ماں کے لیے جان لیوا ہے اوراس کی سلامتی کے لیے خطرہ کا باعث ہے توپھر بھی اس وقت اسقاط حمل جائز ہوگا جب ان خطرات سے نپٹنے کے لیے سارے وسائل بروے کارلائيں جائيں لیکن وہ کارآمد نہ ہوں

4 – حمل کے تیسرے مرحلے اورچارماہ مکمل ہوجانے کے بعد اسقاط حمل حلال نہیں ہے لیکن اگر تجربہ کاراورماہر ڈاکٹر یہ فیصلہ کریں کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی موجودگی ماں کی موت کا سبب بن سکتی ہے ، اوراس کی سلامتی اورجان بچانے کے لیے سارے وسائل بروئے کارلائے جاچکے ہوں ، تواس حالت میں اسقاط حمل جائز ہوگا ۔

ان شروط کے ساتھ اسقاط حمل کی اجازت اس لیے دی گئي ہے کہ بڑے نقصان سے بچا جاسکے اورعظیم مصلحت کوپایا جاسکے  .

ماخذ

فتاوی الجامعۃ ( 3 / 1056 ) ۔

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android