0 / 0
6,45610/05/2010

سودى بنكوں ميں مال ركھنے كا حكم

سوال: 26789

سودى بنكوں ميں مال ركھنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

بنكوں ميں ماہانہ يا سالانہ فائدہ كے ساتھ رقم ركھنا سود ہے جس كى حرمت پر علماء كرام كا اجماع ہے، ليكن بغير كسى فائدہ ( سود ) كے بنكوں ميں رقم ركھنے كے متعلق بھى بہتر يہى ہے كہ جب بنك سودى لين دين كرتے ہوں تو بنكوں ميں بغير ضرورت كےرقم نہ ركھى جائے، كيونكہ بنك ميں رقم ركھنا اگرچہ وہ بغير فائدہ ( سود ) كے ہى كيوں نہ ہو اس ميں سودى لين دين كرنے ميں تعاون ہوتا ہے، لہذا صاحب مال كے ليے خدشہ ہے كہ وہ گناہ اور برائى و زيادتى كے كاموں كے معاونين ميں نہ شامل ہو جائےاگرچہ اس كا ارادہ ايسا نہيں.

لہذا اللہ تعالى كى حرام كردہ اشياء سے اجتناب كرنا اوربچنا ضرورى اور واجب ہے، اور مال ودولت كى حفاظت كے ليے سليم اور صحيح راہ تلاش كرنى چاہيے اور اس كے خرچ كرنے كےليے بھى صحيح راہ تلاش كى جائے.

اللہ تعالى سب مسلمانوں كو ايسے كام كرنے كى توفيق عطا فرمائے جس ميں انكى سعادت و خوشبختى اور ان كى عزت و نجات ہو، اور اللہ تعالى ان كے ليے جلد از جلد اسلامى بنك قائم كرنے ميں آسانى پيدا فرمائے، جو سودى لين دين سے پاك ہوں، بلاشبہ اللہ تعالى اس كا كارساز ہے اوراس پر قادر ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتوں كا نزول فرمائے .

ماخذ

ديكھيں: فتاوى ابن باز ( 4 / 30 - 31 )

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android