0 / 0
25,56017/07/2014

ایک شخص کے زکاۃ الفطر (فطرانہ)کے متعلق متعدد سوالات

سوال: 207225

سوال: میں شادی شدہ ہوں، میرا ایک بیٹا بھی، میری بیوی حاملہ ہے، اور میری والدہ فوت ہوچکی ہیں، جبکہ میرے والد صاحب کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے۔
میری آپ سے التماس ہے کہ مجھے درج ذیل سوالات کے جواب چاہئیں:
1- مجھ پر کتنی زکاۃ نکالنا ضروری ہے؟ میرے پاس بینک میں تقریبا 1500 دینار ہیں۔
2- کیا مجھے میری ذاتی کار، گھریلو سامان، بیوی کا ذاتی زیور، کی بھی زکاۃ ادا کروں، جیسے کہ میرے والد صاحب نے میرے بھائیوں کو کہا ہے کہ نصف مکان کی رجسٹریشن میرے نام کروانا چاہتے ہیں۔
3- میں کس کس کی طرف سے زکاۃ الفطر ادا کرونگا، کیا اپنے والد صاحب کی طرف سے بھی ادا کرونگا؟
4- زکاۃ الفطر کن کو دی جاسکتی ہے؟ کیا میں اپنے ایک دوسرے ملک میں مقیم اہل خانہ کو بھی بھیج سکتا ہوں، کیونکہ انکے حالات وہاں کچھ زیادہ پتلے ہیں۔
5- کیا یہ ممکن ہے کہ زکاۃ نقدی کی شکل میں نہ ہو، بلکہ میں نقدی سے ایک جانور لیکر انکے درمیان تقسیم کردوں؟
6- کیا زکاۃ الفطر عید سے دو ہفتے قبل ادا کرنا جائز ہے، تا کہ انکی صحیح طرح مدد ہوسکے؟
7- زکاۃ الفطر کی مقدار کتنی ہوگی؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

سب سےپہلے یہ ضروری ہے کہ زکاۃ الفطر [فطرانہ] جو کہ رمضان کے آخر میں ہوتا ہے، اور مالی زکاۃ میں فرق ہے؛ فطرانہ ہر مسلمان پر واجب ہے، اور اسے ان لوگوں کی طرف سے بھی ادا کرنےپڑے گا جن کا نان و نفقہ اسکے ذمہ ہے، اور یہ عید کے دن یا عید کی رات [چاند رات] میں اپنی اور اہل خانہ کی ضروریات سے فاضل ہونے والے اناج میں سے ہر فرد کی طرف سے ایک صاع دیا جائے گا۔

چنانچہ فطرانہ واجب ہونے کیلئے مخصوص مال جمع ہونے یا اس پر سال گزرنے کی شرط نہیں لگائی جاتی، جیسے کہ مال [سونے ،چاندی، نقدی]کی زکاۃ میں لگائی جاتی ہے۔

اسی طرح فطرانے کا کسی شخص کی ملکیت میں موجود جائیداد، گاڑیوں، یا روپیہ پیسہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے؛ کیونکہ انسان فطرانہ اپنی طرف سے اور جن کا خرچہ اسکے ذمہ ہے صرف انہی کی طرف سے ادا کرتا ہے۔

مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (12459) اور (49632) کا مطالعہ کریں۔

دوم:

آپکے سوال کے مطابق آپ اپنی طرف سے، بیوی، بیٹے، او ر والد کے پاس مال کی عدم موجود گی میں انکی طرف سے بھی فطرانہ ادا کرینگے۔

جبکہ اس بات پر سب کا اجماع ہے کہ شکم مادر میں موجود بچے کی طرف سے فطرانہ واجب نہیں ہے؛ لیکن اگر پھر بھی آپ شکم مادر میں موجود بچے کی طرف سے بھی ادا کردیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

فطرانے کی مزید تفصیل کیلئے آپ سوال نمبر: (146240) اور (124965) کا مطالعہ کریں۔

سوم:

فطرانہ کیلئے آپ اپنے علاقے میں عام طور پر کھایا جانے والا اناج دیں۔

چنانچہ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتےہیں:

"صحیح بخاری اور مسلم میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ: "ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں [طعام]کھانے کا ایک صاع، یا کھجوروں کا ایک صاع، یا جو کا ایک صاع، یا کشمش کا ایک صاع [فطرانہ میں ]دیتے تھے"

بہت سے اہل علم نے حدیث میں مذکور "طعام"سے مراد گندم لی ہے،جبکہ دیگر علمائے کرام نے "طعام" سے مراد ہر وہ چیز لی ہے جسے کسی بھی علاقے کے لوگ بطورِ خوراک استعمال کرتے ہوں، چاہے گندم ہو، یا مکئی ہو، یا باجرا ، یا کوئی اور چیز، "طعام"کا یہی معنی درست ہے؛ کیونکہ فطرانہ امیر لوگوں کا غریب طبقے کیساتھ اظہار ہمدردی ہے، اور کسی بھی مسلمان پر یہ واجب نہیں ہے کہ اظہار ہمدردی غیر علاقائی غذا سے کرے"انتہی

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اسی معنی کو پسند کیا ہے۔

چنانچہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرانہ عام غذائی اجناس سے ادا کیا جائے گا، نقدی کی شکل میں نہیں دیا جائے گا، جیسے کہ سوال میں ذکر کیا گیا ہے، اس لئے فطرانے کیلئے نقدی کا کوئی اور متبادل بھی نہیں دیا جاسکتا۔

چاہے زکاۃ الفطر [فطرانہ] ہو، یا مالی زکاۃ، زکاۃ ادا کرنے والے کا یہ حق نہیں بنتا کہ اپنی زکاۃ میں من مانیاں کرتے ہوئے فقراء کیلئے خود ہی خریداری شروع کردے، اور اس سے گوشت ، کپڑے، یا دیگر ضروریات کی اشیاء خرید لے۔

اس کے لئے آپ سوال نمبر: (22888) اور (66293) کا بھی مطالعہ کریں۔

چہارم:

ضرورت کے وقت فطرانہ یا زکاۃ اپنےملک میں رشتہ داروں کے پاس بھی بھیج سکتے ہو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ فطرانہ ملک سے باہر بھیجنا اس وقت مزید ضروری ہوجاتا ہے جس وقت جس ملک میں لوگ مزدوری کی غرض سے جائیں اور وہاں کے لوگوں کی اکثریت آسودہ، اور خوشحال ہو، جبکہ خود اسکے اپنے ملک کے لوگ بھوک پیاس اور تنگی میں ہوں۔

اور ان میں سے اکثر لوگ اپنے ملک میں موجود فقراء کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں، اور جہاں مزدوری کا موقع ملا ہے یہاں کے غریب لوگوں کا انہیں علم نہیں ہوتا۔

زکاۃ کی منتقلی اس وقت مزید زور پکڑ جاتی ہے جب ملازمت والے ملک سے زکاۃ اپنے اصلی ملک میں اسکے رشتہ داروں اور عزیز واقارب میں تقسیم کی جانی ہو۔

اسکی مزید وضاحت کیلئے آپ سوال نمبر: (81122) اور (43146) کا بھی مطالعہ کریں۔

پنجم:

رمضان کے آخری دن کا سورج غروب ہونے سے فطرانہ واجب ہوجاتا ہے، اور اسے عید کی نماز سے قبل ادا کرنا ضروری ہوتا ہے، تاہم ضرورت کی بنا پر دو تین دن پہلے بھی ادا کیا جاسکتا ہے۔

چنانچہ مذکورہ بالا بیان کے بعد: عید سے ایک یا دو ہفتے قبل فطرانہ ادا کرنا جائز نہیں ہے۔

لیکن اگر آپکو اندیشہ ہو کہ فطرانہ عید کے وقت تک نہیں پہنچ پائے گا تو آپ اتنا پہلے بھیج سکتے ہیں کہ آسانی سے مطلوبہ جگہ پہنچ جائے، چاہے رمضان سے پہلے ہی کیوں نہ بھیجنا پڑے، آپ اس کیلئے کسی معتمد شخص کو ذمہ داری سونپ دیں، کہ وہ آپکے فطرانہ کی رقم سے اناج خرید لے، اور مقررہ وقت سے پہلے اسکی ادائیگی مت کرے۔

مزید کیلئے سوال نمبر: (81164) ، اور( 27016 ) ، اور ( 7175 ) کا بھی مطالعہ کریں۔

اور مالی زکاۃ جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ رمضان یا غیر رمضان سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ جب بھی نصاب تک مال پہنچ جائے ، اور اس پر سال بھی گزر جائے تو اسکی زکاۃ نکالنا واجب ہوجائے گا۔

اور اگر ایک سال ہونے میں ابھی ایک ماہ سے کم و بیش مدت باقی ہو، اور صاحب مال زکاۃ دینا چاہے تو اسکے لئے اپنے مال کی ایڈوانس زکاۃ دینا جائز ہے، بشرطیکہ کہ ایڈوانس زکاۃ ادا کرنے کی ضرورت بھی ہو۔

اس بارے میں آپ سوال نمبر: (98528) کا مطالعہ بھی کریں۔

زکاۃ الفطر [فطرانہ] اور زکاۃ المال کے درمیان فرق پہلے بھی گزر چکا ہے، اور اس سوال : (145558) کے جواب میں بھی آپ ملاحظہ فرمائیں۔

ششم:

نقدی پیسوں میں زکاۃ کی فرضیت کیلئے دو شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے۔

1- مال نصاب تک پہنچتا ہو

2- نصاب پر ایک سال بھی گزر چکا ہو۔

چنانچہ اگر مال نصاب سے کم ہے تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔

لہذا جب مال نصاب تک پہنچ جائے، اور نصاب تک پہنچنے کے بعد اس پر ایک ہجری سال بھی گزرجائے تو اس وقت زکاۃ واجب ہوگی۔

زکاۃ کیلئے نقدی رقوم 85 گرام سونا، یا 595 گرام چاندی کے برابر ہوں۔

اور اس میں سے زکاۃ کیلئے چالیسواں حصہ دیا جائے گا یعنی 2.5 ٪(اڑھائی فیصد)

مزید تفصیل کیلئے سوال نمبر: (93251) اور (50801) کا مطالعہ کریں

اور آپکے ذاتی استعمال میں آنے والی کار ، اور رہائش پر کسی قسم کی زکاۃ نہیں ہے۔

مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (146692) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

اور آپکے والد محترم اپنی ملکیت میں سے کچھ بھی آپکے نام رجسٹر کروا سکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ، ہاں اگر آپکے والد کے آپکے علاوہ بھی بیٹے ہیں تو انہیں نظر انداز کرتے ہوئے صرف آپکو دینا جائز نہیں ہے، بلکہ سب کے درمیان عدل کرتے ہوئے برابری کی بنیاد پر سب کو دینا ضروری ہے۔

اور اگر آپکے بھائی آپکے لئے والد کی طرف سے کروائی جانے والی رجسٹریشن پر بغیر کسی جھجک اور جبر کے راضی ہیں، تو آپکے والد کیلئے انکی رضا مندی سے آپکے نام کسی بھی چیز لکھوا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android