0 / 0
28,24201/10/2013

ایمان سے متعلق کچھ عربی عبارتیں جنہیں جنوبی ایشیا کے باشندے یاد کرتے ہیں

سوال: 198568

میں نے دیکھا ہے کہ جنوب ایشیائی مسلمانوں کو خاص طور پر پاکستان، بنگلہ دیش، اور ہندوستان کے لوگوں کو دو عبارتیں “ایمان مجمل” “ایمانِ مفصل” اور اسکے ساتھ ساتھ “چھ کلمے” ہی یاد ہوتے ہیں جنکی تفصیل یہ ہے:

1- ایمان کا پہلا رکن: آمَنْتُ بِاللهِ كَمَا هُوَ بأسمائه وَصِفَاتِه وَقَبِلْتُ جَمِيْعَ أَحْكَامِه وَأَرْكَانِه
ترجمہ: میں اللہ پر اسکے اسماء و صفات کے مطابق ایمان لایا، اور اسکے تمام احکامات، اور ارکان کو قبول کرتا ہوں

2- ایمان کا دوسرا رکن: آمَنْتُ بِاللهِ ، وملائكته ، وَكُتُبِه ، وَرَسُوْلِه ، وَالْيَوْمِ الْاخِرِ ، وَالْقَدْرِ خَيْرِه وَشَرِّه مِنَ اللهِ تَعَالى ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ

ترجمہ: میں اللہ پر ، اسکے فرشتوں، کتابوں، رسولوں،یومِ آخرت، اللہ کی جانب سے اچھی بری تقدیرپر، اور مرنے کے بعد جینے پر ایمان لایا۔

جبکہ چھ کلموں کے نام یہ ہیں: کلمہ طیبہ، کلمہ شہادت، کلمہ رد کفر، کلمہ تمجید، کلمہ توحید، اور چھٹا مجھے بھول گیا ہے(کلمہ استغفار، اضافہ از مترجم)

میرا سوال یہ ہے کہ یہ صرف جنوبی ایشیا میں ہی کیوں مشہور ہوئے؟

مجھے معلوم ہے کہ اسلام میں ارکانِ ایمان، فرشتوں پر ایمان، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان، توحید وغیرہ پر مشتمل ہیں، لیکن میں نے اس جغرافیائی علاقے میں سب لوگوں کو یکساں پایا، میں ایسی کتاب کی تلاش میں ہوں جو عیسوی سن 1500 میں لکھی گئی ہے، جس میں ان عبارتوں کا تذکرہ ہے۔

میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا اس کی جڑیں صوفیت سے جاکر ملتی ہیں؟

جب صوفی مذاہب کو ان علاقوں میں پذیرائی ملی تو اس دور میں مغلیہ بادشاہت موجود تھی ، تو کیا کوئی نص ان کلمات کے بارے میں ہے؟

میں نے بنگلہ دیش اور پاکستان کے جتنے بھی مسلمانوں سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہی جواب دیا: “ہاں !ہمیں یاد ہیں، لیکن ہمیں یہ نہیں پتہ کہ انکی ابتدا کب ہوئی تھی”

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

مذکورہ بالا کلمات میں کوئی غلط بات نہیں ہے، بلکہ سب کچھ ٹھیک ہے، اہل سنت والجماعت کے عقائد کے بالکل موافق ہے۔

جبکہ ایمان کی دو قسمیں بنانا ، ایمانِ مجمل، اور ایمانِ مفصل، مشہور بات ہے۔

چنانچہ ایمان مجمل: اصل اور حقیقی ایمان پر بولا جاتا ہے، اسی کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیثِ جبریل میں فرمایا ہےکہ: (اللہ پر، اسکے فرشتوں، کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن،اور اچھی بری تقدیر پر توں ایمان لائے)مسلم، ایسے ہی اس ایمان کا تقاضا ہے کہ نماز ، روزہ اور زکاۃ بھی فرض ہیں۔ یہ تمام عبادات ہر مسلمان پر واجب ہیں، اور ایمان کی یہ قسم ان اعمال کے درست ہونے کیلئے شرط بھی ہے۔

ایمان کی یہ قسم تصدیق، توحیدِ الوہیت، توحیدِ اسماء و صفات اپنانے اور اجمالی طور پر اطاعتِ الہی و اطاعتِ رسول سے حاصل ہوتی ہے۔

ایمان کے اس مرحلے میں تفصیلی مسائل کے بارے میں علم ہونا ضروری نہیں ہے۔

جبکہ ایمانِ مفصل میں اسمائے حسنی ، صفات، فرشتوں کے متعلقہ غیبی معاملات، یومِ آخرت کے حالات، انبیاء و رسل ، اور اسکے علاوہ ایمان کے ارکانِ ستہ کے بارے میں عقیدے کے تفصیلی مسائل کا علم ہونا ضروری ہے۔

اسی طرح “چھ کلموں” – کلمہ طیبہ، کلمہ شہادت، کلمہ رد کفر، کلمہ تمجید، کلمہ توحید -کے بارے میں کوئی ظاہری طور پر غلطی یا خطاء نظر نہیں آتی،ہمیں ان کلمات کو جمع کرنے اور انکے ناموں کے بارے میں بھی کچھ پتہ نہیں چل سکا، ایسے ہی اس بات کی تاریخی حیثیت کے بارے میں بھی ہمیں علم نہیں ہے، اور نہ ہی مذکورہ کتاب کے بارے میں کچھ معلومات حاصل ہوسکی ہیں۔

مختصر طور پر صحیح اور غلط عقیدہ کے بارے میں جاننے کیلئے سوال نمبر (108579) کا جواب ملاحظہ کریں۔

و اللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android