0 / 0
17,95817/05/2016

فوت شدگان کی جانب سے کسی عذر یا بغیر عذر کے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دینے کا حکم

سوال: 174581

سوال: میرے والد مرحوم نماز کے پابند تھے اور اپنے پرائے سب غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے انہوں نے اپنی طرف سے اور اپنے والدین کی طرف سے حج بھی کیا تھا، میں ابھی چھوٹی ہی تھی کہ ان کی وفات ہو گئی، لیکن میری والدہ نے ایک دن ہمیں یہ بتلا کر پریشان کر دیا کہ انہوں نے اپنی پوری ازدواجی زندگی (تقریباً 11 یا 12 سال )میں روزے نہیں رکھے، اور شادی سے پہلے کے روزوں سے متعلق انہیں علم نہیں ہے، میری والدہ کہتی ہیں کہ میرے والد روزے نہ رکھنے کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ 70 اور 80 کی دہائی میں بطور ٹرک ڈرائیور ان پر روزہ رکھنا بہت گراں تھا، کیونکہ اس وقت ائیر کنڈیشنڈ ٹرک نہیں ہوتے تھے، اور وہ خلیجی صحراؤں میں لمبی ڈیوٹی دیتے تھے!!، مجھے یہ معلوم ہے کہ یہ بات روزہ چھوڑنے کیلیے نا کافی ہے، لیکن میری والدہ نے ہمیں یہی بتلایا ہے۔

ا
ب میرا سوال یہ ہے کہ ہم اپنے والد کی طرف سے ان تمام سالوں کے روزوں کی قضا کیسے دیں، اب ہمیں ان کی تعداد کا بھی صحیح علم نہیں ہے، اور ساٹھ سالہ عمر کتنے روزے انہوں نے چھوڑے یہ بھی معلوم نہیں ہے؟

اور ایک سوال میری والدہ کے متعلق بھی ہے کہ : شادی سے پہلے جب بالغ ہوئیں تو انہوں نے روزوں کی اہمیت سے نا بلد ہونے کے باعث روزے نہیں رکھے؛ کیونکہ وہ اس وقت دیہات میں رہتی تھیں، انہوں نے شریعت کی پابندی شادی کے بعد شروع کی ، اب انہیں بھی یہ صحیح طرح سے معلوم نہیں ہے کہ کتنے سال کے انہوں نے روزے نہیں رکھے؛ کیونکہ اب تک 36 سال گزر چکے ہیں؛ تو اب ان روزوں کی قضا کیسے دے۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

سفر اور شفا یابی کی امید رکھتے ہوئے بیماری کی وجہ سے چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا دینا واجب ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص ان روزوں کی قضا دیے بغیر فوت ہو جائے حالانکہ وہ روزوں کی قضا دے سکتا تھا تو یہ روزے اس کے ذمہ باقی رہیں گے، ایسی صورت میں میت کے ورثا کی جانب سے روزے رکھنا مستحب ہے؛ اس کی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: (جو شخص اس حالت میں فوت ہو کہ اس کے ذمہ روزے تھے تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے گا) بخاری: (1952) مسلم: (1147)

لیکن اگر قضا دینے کی صلاحیت حاصل ہونے سے پہلے فوت ہو جائے ، مثال کے طور پر وہی بیماری وفات کا سبب بن جائے، تو ایسی صورت میں اس کے ذمہ روزے نہیں ہوں گے، اور نہ ہی میت کے ورثا اس کی طرف سے روزے رکھیں گے۔

تاہم جو شخص بغیر کسی عذر کے صرف سستی اور کاہلی کی وجہ سے روزے چھوڑ دے تو ایسا شخص روزے نہیں رکھ سکتا اور اگر رکھ بھی لے تو اس کے یہ روزے صحیح نہیں ہوں گے؛ کیونکہ روزے رکھنے کا وقت گزر چکا ہے۔

اس بات کی تفصیل پہلے سوال نمبر: (50067) اور (81030) میں گزر چکی ہے۔

چنانچہ اس بنا پر :
ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ چونکہ آپ کے والد نمازوں کے پابند اور صدقہ خیرات کرتے تھے اس لیے وہ روزے بغیر کسی عذر کے نہیں چھوڑ سکتے، تو اب ایک ہی صورت باقی رہتی ہے کہ وہ روزے سفر میں رہنے کی وجہ سے نہیں رکھتے تھے، اب یہ معلوم نہیں ہے کہ کیا موسم سرما کے دنوں میں دوران سفر وہ روزوں کی قضا دیتے تھے یا نہیں؟ -آپ کی والدہ کو بھی اس بات کا علم نہیں ہے- نیز کیا گھر میں رہتے ہوئے انہی روزوں کی قضا دینے کا موقع ملتا تھا یا نہیں؟ یا وہ ہمیشہ ہی سفر میں رہتے تھے کیونکہ ان کی ملازمت ہی ایسی تھی جس کی وجہ سے انہیں روزوں کی قضا دینے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا اور اسی حالت میں ان کی وفات ہو گئی۔

ان تمام احتمالات کو مد نظر رکھ کر یہ کہا جائے گا کہ: اگر آپ کو حقیقت تک رسائی حاصل نہ ہو  اور آپ ان کی طرف سے اپنی استطاعت کے مطابق روزے رکھ دو تو یہ اچھا کام ہوگا، ان شاء اللہ آپ کو اس کا اجر ضرور ملے گا، واضح رہے کہ اس صورت میں آپ پر ان کی طرف سے روزے رکھنا واجب نہیں ہے، اسی طرح انہوں نے کتنے سال روزے نہیں رکھے ان کی یقینی تحدید بھی لازمی نہیں ہے، چنانچہ اس کیلیے ظن غالب اور اندازے سے ان سالوں کی تعداد معین کر لی جائے، اور آپ اپنی استطاعت کے مطابق ان کی طرف سے روزے رکھیں، یہ آپ کا اپنے والد پر احسان ہوگا، لیکن واضح رہے کہ یہ روزے آپ کیلیے اس سے اہم ذمہ داریوں میں رکاوٹ نہ بنیں۔

آپ کے والد صاحب کی طرف سے روزوں کی قضا دینے کیلیے تمام ورثا بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں، اور جس کیلیے روزہ رکھنا مشکل ہو تو وہ ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“میت کی طرف سے ولی پر روزے رکھنا مستحب ہے، اگر ولی روزے نہ رکھے تو ہم کہیں گے کہ: فرض روزے پر اسے قیاس کرتے ہوئے ہر دن کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے”

اسی طرح ایک اور مقام پر انہوں نے کہا:
“مثال کے طور پر یہ کہا جائے کہ ایک آدمی کے 15 بیٹے ہیں اور ہر ایک بیٹا 30 روزوں میں سے 2 روزے رکھے تو یہ درست ہوگا، اسی طرح اگر ورثا کی تعداد 30 ہو اور ہر کوئی ایک ایک روزہ رکھ دے تو  یہ بھی درست ہوگا؛ کیونکہ اس طرح روزوں کی تعداد 30 پوری ہو گئی ہے، نیز ایک ہی دن سب روزے رکھیں یا تیس روزے مکمل کرنے تک یکے بعد دیگرے روزے رکھیں  دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے” انتہی
“الشرح الممتع” (6/ 450- 452)

دوم:

آپ کی والدہ نے بلوغت کے بعد اور شادی سے پہلے جو روزے ترک کیے ہیں ان کے بارے میں درج ذیل تفصیل ہے:

1- جو روزے انہوں نے سستی اور کاہلی کی وجہ سے بغیر کسی عذر کی بنا پر چھوڑے تو وہ ان روزوں کی قضا نہیں دے سکتیں، جیسے کہ پہلے وضاحت گزر چکی ہے۔

2- جو روزے انہوں نے حیض، سفر اور بیماری کی وجہ سے چھوڑے ہیں ان کی قضا دینا ان پر لازمی ہے، ان کی تعداد اتنی مقرر کریں جس سے دل مطمئن ہو جائے کہ روزوں کی تعداد مکمل ہو جائے گی ۔

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android