0 / 0

كفالت كى غرض سے يتيم بچے كى نسبت كا مسئلہ

سوال: 95216

تقريبا چھ برس قبل ميرى شادى ہوئى ليكن ابھى تك اللہ تعالى نے مجھے اولاد كى نعمت سے نہيں نوازا، شادى سے قبل ميرى خواہش تھى كہ ميں كسى يتيم بچے كو اپنے بچے كے ساتھ دودھ پلاؤں اور اس كى تربيت كروں، تا كہ مجھے بھى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قرب كا درجہ حاصل ہو سكے، اب مجھے ايك يتيم بچے كو اپنى پرورش ميں لينے كا موقع حاصل ہوا ہے، جو كہ ميرى بھابھى كا حمل ہے، اور وہ ميرے خاوند كى بہن سے ہے تا كہ اس كے ليے شرعى رضاعت ثابت ہو سكے جو اسے ميرے اور ميرے خاوند اور خاندان كے ليے محرم بنا دے، ميں نے مونہہ بولا بيٹا بنانے كى محروميت كے متعلق سوچا ليكن ميں ايك خليجى عرب رياست ميں رہتى ہوں، جہاں اقامہ اور پاسپورٹ كا نظام ہے، اور يہ ادارے اس بات كى اجازت نہيں ديتے كہ بچہ ميرے پاس ہو اور اس كى نسبت كسى اور طرف اسى طرح ميں اپنے ملك بھى جايا كرونگى جہاں كا قوانين اور نظام بھى يہ اجازت نہيں ديتا كہ بچہ كى نسبت ميرى طرف ہوئے بغير ميں ركھ سكوں، يہ ايك محال امر ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ:
ان مشكلات كو مد نظر ركھتے ہوئے كسى كو اپنا بيٹا بنانے ميں شرعى حكم كيا ہے، يہ علم ميں رہے كہ ميرے اور خاوند كے خاندان والوں كو علم ہے كہ ہم بچہ لے كر آئينگے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

ہم اللہ تعالى سے دعا كرتے ہيں كہ وہ آپ كو نيك و صالح اولاد سے نوازے جس سے آپ اپنى آنكھوں كو ٹھنڈا كريں، اور وہ بچہ آپ كے ليے اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى اور اس كى خوشنودى ميں معاون ثابت ہو.

دوم:

اللہ تعالى كى رضا اور اس كا قرب حاصل كرنے كے ليے يتيم كى كفالت كرنے كا بہت زيادہ اجروثواب ہے، اور پھر اس ميں اس يتيم كے ليے رحمت و شفقت اور احسان و ديكھ بھال بھى ہے.

رہا منہ بولا بيٹا بنانے كا مسئلہ تو اس كى حرمت آيت قرآنى سے صاف ظاہر ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور نہ ہى اللہ نے تمہارے لے پالك بچوں كو تمہارا حقيقى بيٹا بنايا ہے، يہ تو تمہارے اپنے منہ كى باتيں ہيں، اللہ تعالى حق بات فرماتا ہے، اور وہ سيدھى راہ كى راہنمائى كرتا ہے، انہيں ان كے ( حقيقى ) باپوں كى طرف نسبت كر كے بلاؤ، اللہ كے نزديك پورا انصاف يہى ہے، اور اگر تمہيں ان كے باپوں كا علم ہى نہ ہو تو وہ تمہارے دينى بھائى اور دوست ہيں الاحزاب ( 4 – 5 ).

ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

” كسى شخص كا جانتے ہوئے اپنى نسبت باپ كے علاوہ كسى اور كى طرف كرنا كفر كے علاوہ كچھ اور نہيں، اور جس نے اپنى نسبت كسى اور قوم كى طرف كى جس ميں سے وہ نہيں تو وہ اپنا ٹھكانہ جہنم ميں بنا لے “

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3317 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 61 ).

لےپالك بيٹا بنانے اور يتيم كى كفالت ميں فرق كے ليے آپ سوال نمبر ( 5210 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

سوم:

يتيم بچے كى نسبت آپ كے خاوند كى طرف كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ حرام كردہ تبنى يعنى منہ بولا بيٹا بنانے ميں شامل ہوتا ہے، اور اس كے نتيجہ ميں وراثت وغيرہ ميں كئى ايك خرابياں پيدا ہوتى ہيں، اور يتيم كى كفالت كرنے ميں آپ كى رغبت اس حرام كام كو مباح نہيں كرسكتى.

اس بنا پر اگر يتيم كى كفالت لے پالك اور متبنى يعنى منہ بولا بيٹا بنائے بغير نہ ہوتى ہو اور اس ميں آسانى نہ ہو سكے تو آپ صبر كريں، اور انتظار كريں كہ اللہ تعالى اس ميں آسانى پيدا كر دے اور مشكل كو دور كرے، كيونكہ اللہ تعالى كے خزانے بھرے ہوئے ہيں.

اور ہر چيز اللہ تعالى كے ہاتھ ميں ہے، اور جو شخص دروازہ مستقل طور پر كھٹكاتا رہے تو اس كے ليے وہ دروازہ كھل جاتا ہے.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو وہ اپنے فضل و كرم سے نوازے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android