سوال: کیا اجتماعی طور پر دعا مانگنا جائز نہیں ہے؟
اجتماعی دعا مانگنے کا حکم
سوال: 93757
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اجتماعی دعا کرنا کہ ایک شخص دعا مانگے اور بقیہ آمین کہیں تو اس کی دو صورتیں ہیں :
کہ یہ حدیث سے ثابت ہو مثال کے طور پر نماز استسقاء اور دعائے قنوت کے موقع پر تو اس کے شرعی طور پر جائز ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
دوسری صورت کہ سنت نبویہ کے مطابق ان جگہوں میں دعا مانگنا ثابت نہ ہو مثال کے طور پر فرض نمازوں کے بعد، میت کو دفن کرنے کے بعد، میدان عرفہ میں یا اس کے علاوہ دیگر مقامات پر تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر کبھی کبھار ایسے دعا مانگ لی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اسے مستقل طور پر عادت بنا لیا جائے تو یہ بدعت ہو گی۔
ہم آپ کو اس بارے میں اہل علم کے اقوال بتلاتے ہیں:
1- امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
کیا لوگوں کا جمع ہو کر ہاتھ بلند کر کے دعا مانگنا مکروہ ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ: “اگر لوگ عمداً اکٹھے نہ ہوں تو میں اسے اپنے بھائیوں کیلیے مکروہ نہیں سمجھتا ، لیکن اگر اسے وہ کثرت سے کریں تو مکروہ ہے۔” انتہی
اس کی وضاحت میں ابن منصور کہتے ہیں: اسحاق بن راہویہ کے مطابق کثرت سے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اسے عادت بنا لیں اور پھر کثرت سے کرنا شروع کر دیں۔
ابو عباس فضل بن مہران کہتے ہیں :
میں نے یحیی بن معین اور احمد بن حنبل رحمہما اللہ سے پوچھا:
“ہمارے ہاں کچھ لوگ جمع ہو کر دعا کرتے ہیں اور قرآن مجید کی تلاوت سمیت ذکر بھی کرتے ہیں، آپ ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
تو یحیی بن معین نے جواب دیا کہ: “قرآن مجید کی تلاوت کریں اور نماز کے بعد دعا کریں اور اپنے دل ہی میں ذکر الہی بجا لائیں”
اس پر میں نے کہا: “اگر میرا کوئی بھائی ایسا کرے تو ؟”
یحیی بن معین نے کہا: “اسے منع کرو”
میں نے کہا: “وہ نہیں مانتا”
یحیی نے کہا: “اسے سمجھاؤ”
میں نے کہا: “پھر بھی نہیں مانتا، تو کیا میں اس سے علیحدہ ہو جاؤں؟”
تو یحیی نے کہا: “ایسا کر لو”
اس کے بعد میں احمد بن حنبل کے پاس آیا اور انہیں بھی یہی بات کہی تو انہوں نے کہا:
امام احمد: “قرآن مجید کی تلاوت کرے، اکیلے اللہ کا ذکر کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سیکھے”
میں نے کہا: تو کیا میں اسے روکوں؟
احمد: “ہاں اسے روکو”
میں نے کہا: اگر میری بات نہ مانے تو؟
احمد: “ان شاء اللہ مان لے گا؛ کیونکہ تمہارا بیان کردہ اکٹھے ہونے کا طریقہ دین میں نیا کام ہے”
میں نے کہا: اگر میری بات پھر بھی نہ مانے تو کیا میں اس سے علیحدگی کر لوں؟
اس پر امام احمد مسکرائے اور خاموش ہو گئے” انتہی
“الآداب الشرعية” (2/102)
2- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“تلاوت قرآن، ذکر، اور دعا کیلیے اکٹھے ہونا اچھا اور مستحب عمل ہے، بشرطیکہ اسے اتنی پابندی کے ساتھ نہ کیا جیسے شرعی اجتماعات ہوتے ہیں، اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی اور بدعت کی جائے۔” انتہی
“مجموع الفتاوى” (22/523)
3- دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے ایسے امام کے بارے میں پوچھا گیا جو فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرواتا ہے اور مقتدی بھی اسی طرح دعا کرتے ہیں، اس میں امام دعا مانگتا ہے اور مقتدی اس کی دعا پر آمین کہتے ہیں۔
تو انہوں نے جواب دیا:
“عبادات کی بنیاد دلیل پر ہوتی ہے، اس لیے دلیل کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عبادت اصل ، تعداد یا کیفیت ، یا جگہ کے اعتبار سے شرعی عمل ہے، چنانچہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قولی ، فعلی یا تقریری ایسی کوئی دلیل نہیں ملتی جس میں اس کا جواز ملتا ہو” انتہی
“مجلة البحوث الإسلامية” (17/55)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:
ایک شخص کی عادت ہے کہ وہ ہر جمعے کو کھانا کھلاتا ہے اور کھانا کھانے کے بعد سب لوگ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے رہتے ہیں ، پھر کھانا کھلانے والے کی جانب سے متعین کردہ شخص اس کے فوت شدہ رشتہ داروں کیلیے ایصال ثواب کی دعا کرواتا ہے، اس دعا کے دوران وہ شخص دعا کرتا ہے اور بقیہ تمام آمین کہتے ہیں، تو کیا اجتماعی طور پر کھانے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے یا نہیں؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“مذکورہ کیفیت کے ساتھ اجتماعی طور پر دعا کرنے کی شریعت مطہرہ میں کوئی دلیل نہیں ہے، اس لیے واجب یہی ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے ؛ کیونکہ یہ بدعت ہے، تاہم کھانا کھلانے والے کیلیے شریعت مطہرہ میں ثابت دعائیں کی جائیں اور اس کیلیے ہر شخص تنہا دعوت کرنے والے کیلیے دعا کرے، جیسے کہ احادیث مبارکہ میں دعا ہے کہ:
“اَللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِيْمَا رَزَقْتَهُمْ وَاغْفِرْ لَهُمْ وَارْحَمْهُمْ”
ترجمہ: یا اللہ! تیرے عطا کردہ ان کے رزق میں برکت عطا فرما اور انہیں بخش دے نیز ان پر رحم بھی فرما۔
اسی طرح ایک دعا یہ بھی ہے کہ:
“أَفْطَرَ عِنْدَكُمُ الصَّائِمُوْنَ ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمُ الْأَبْرَارُ ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمُ الْمَلَائِكَةُ “
ترجمہ: تمہارے پاس روزے دار روزہ کھولتے رہیں، تمہارا کھانا نیک لوگ ہی کھائیں، اور فرشتے تمہارے لیے رحمت کی دعا کرتے رہیں” انتہی
“فتاوى اللجنة الدائمة” (24/190)
4- شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
“کچھ لوگ وعظ و نصیحت کیلیے جمع ہوتے ہیں اور آخر میں اجتماعی دعا کرتے ہیں ، ایک شخص دعا مانگتا ہے اور بقیہ آمین کہتے ہیں، تو کیا یہ صحیح ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“یہ صحیح اس وقت ہے جب اسے عادت نہ بنا لیا جائے، چنانچہ اگر عادت بنا لیا گیا تو اسے مستقل طریقہ بنا لیا جائے گا حالانکہ یہ سنت سے ثابت نہیں ہے، لہذا اگر وہ ہر بار آخر میں دعا کرتے ہیں تو یہ بدعت ہے، ہمیں یہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ملتا۔
تاہم اگر بسا اوقات ایسا کیا جائے کہ جب اللہ تعالی کی طرف سے جنت کے وعدے کا تذکرہ ہو یا عذاب کی وعید ہو تو اس وقت اللہ تعالی سے ان سے متعلق دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی چیز کو ہمیشہ کرنا اور کبھی کبھار کرنے میں فرق ہوتا ہے، کبھی کبھار میں انسان کوئی کام کرے تو اس میں کوئی معیوب بات نہیں ہے؛ جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی کبھار صحابہ کرام قیام اللیل میں مل جاتے تھے، اس لیے سنت بھی اتنا ہی عمل ہو گا کہ کبھی کبھار قیام اللیل با جماعت ہو جائے، ہمیشہ با جماعت قیام اللیل کرنا صحیح نہیں ہے” انتہی
ماخوذ از: “لقاءات الباب المفتوح (117/21)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب