0 / 0
7,13907/01/2008

روزہ ركھ كراپنےملك آئے تو وہاں رمضان كا چاند نظر ہى نہيں آيا

سوال: 93432

ميرا سوال دو ملكوں ميں رؤيت ہلال مختلف ہونے كے باوجود روزہ ركھنا فرض ہونے كے متعلق ہے، ہم سعودى عرب سے رمضان المبارك كا چاند نظر آنے كے بعد اپنے ملك اردن گئے اور وہاں ظہر كے بعد پہنچے تو اردن ميں رمضان كا چاند نظر نہيں آيا تھا، بہت سےمسافروں نے شرعى حكم معلوم نہ ہونے كى بنا پر روزہ نہيں ركھا تھا، ا سكا حكم كيا ہے ؟

كيا وہ اس دن كا روزہ قضاء كرينگے ؟

اور جنہوں نے روزہ ركھا تھا تو كيا ان كا روزہ صحيح ہے، اور آيا وہ اردن كے ساتھ رمضان المبارك مكمل كرينگے، چاہے ان كے روزوں كى تعداد اكتيس دن ہو جائے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

سوال نمبر (50487 ) كے جواب ميں يہ بيان ہو چكا ہے كہ چاند كے مطلع جات مختلف ہوتے ہيں، اور مطلع مختلف ہونے كى بنا پر ہر ملك كى رؤيت بھى مختلف ہے، اور كسى ايك ملك اور علاقے ميں چاند نظر آنے سے دوسرے ملك والوں پر روزہ ركھنا فرض نہيں ہو جاتا.

دوم:

ظاہر تو يہى ہوتا ہے ـ و اللہ اعلم ـ جو كسى ايسے ملك ميں ہو جہاں رمضان كا چاند نظر آ جائے تو اس پر وہاں كے باشندوں كےساتھ روزہ ركھنا واجب ہوتا ہے، حتى كہ اگر وہ اسى دن ايسے ملك چلا جائے جہاں رمضان كا چاند نظر نہ آيا ہو، يہ اس ليے كہ رمضان كا چاند نظر آجانے كى بنا پر اس دن كا روزہ اس پر فرض ہو چكا ہے كيونكہ وہ اس ملك ميں تھا جہاں چاند نظر آ گيا اور چاند نظر آنے كے بعد وہ دوسرے ملك گيا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تم ميں سے جو شخص بھى اس مہينہ كو پائے اسے ا سكا روزہ ركھنا چاہيے البقرۃ ( 185 ).

اور اس شخص نے اس ماہ كو پا ليا ہے اس ليے اس پر ا سكا روزہ ركھنا فرض ہے.

سوم:

رہا يہ مسئلہ كہ مہينہ كے ايام كو شمار كرنا، كہ اس ميں اعتبار كہاں كا ہوگا، اور يہ اختلاف كہ آيا وہ پہلے ملك كے مطابق رمضان كا مہينہ پورا كرے، يا كہ اس ملك كے حساب كے مطابق جہاں وہ منتقل ہوا ہے ؟

تو اس ميں بہت سے فقھاء نے جو قاعدہ اور اصول بيان كيا ہے وہ يہ ہے كہ:

جس ملك ميں وہ منتقل ہوا ہے ا سكا اعتبار كيا جائيگا، جيسا كہ امام نووى رحمہ اللہ ” المجموع ” ( 6 / 274 ) ميں بيان كرتے ہيں:

تو اگر دوسرے ملك كے باشندوں نے تيس روزے پورے كيے تو وہ ان كے ساتھ ہى روزے ركھےگا ـ چاہے اس كے اعتبار سے وہ اكتيسواں روز ہو ـ ليكن اگر وہ انتيس روزے ركھتے ہيں تو پھر اس ميں كوئى اشكال ہى باقى نہيں رہتا، كيونكہ اس طرح ا سكا وہ تيسواں روزہ ہوگا، اور مہينہ كبھى انتيس اور كبھى تيس يوم كا ہوتا ہے .

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” اگر اس نے كسى ايك ملك ميں رہتے ہوئے روزے ركھنے شروع كر ديے اور پھر وہ دور كے ملك سفر كر گيا جہاں پہلے ملك ميں چاند نظر آنے كے وقت چاند نہيں ديكھا گيا تو وہ روزہ كى ابتدا سے تيس روزے مكمل كرے ( اگر ہم يہ كہيں كہ ) ہر ملك كے ليے ا سكا حكم ہے، تو اس ميں دو وجہيں ہيں ( ان ميں صحيح ترين يہ ہے كہ ) اسے ان كے ساتھ ہى روزے ركھنا ہونگے، كيونكہ وہ ان كے ساتھ شامل ہو گيا ہے.

اور اگر اس نے ايك ملك ميں چاند ديكھا اور پھر اس نے عيد بھى وہيں كى اور اس كے بعد بحرى جہاز كسى ايسے ملك لے گيا كہ وہاں كے باشندے ابھى روزے كى حالت ميں تھے تو كيا كرے ؟

شيخ ابو محمد كہتے ہيں: جب ہم يہ كہيں كہ ہر ملك كا اپنا حكم ہے تو اسے اس دن كا باقى حصہ بغيركچھ كھائے پيئے گزارنا ہوگا ” انتہى.

ديكھيں: المجموع ( 6 / 274 ).

اور ابن حجر الھيتمى رحمہ اللہ كى كتاب ” تحفۃ المحتاج ” ميں ہے:

” مطلع جات مختلف ہونے كى بنا پر اگر ہم دوسرے ملك كے باشندوں پر روزہ ركھنا واجب نہيں كرتے، تو اگر ايك شخص چاند نظر آنے والے ملك سے اس ملك سفر كرجائے تو صحيح يہى ہے كہ وہ ان كے ساتھ روزے ختم كرنے ميں موافقت كريگا، چاہے اس نے تيس پورے بھى كر ليے ہونگے؛ كيونكہ جب وہ وہاں منتقل ہو گيا تو وہ بھى ان جيسا ہى ہو گيا ہے ” انتہى.

ديكھيں: تحفۃ المحتاج ( 3 / 383 ).

اور حنابلہ كى كتاب ” الانصاف ” ميں درج ہے:

” الرعايۃ الكبرى ميں كہا ہے: اگر جمعہ كى رات چاند نظر آنے والے ملك سے ہفتہ كى رات چاند نظر آنے والے ملك كوئى سفر كر جائے، اور اسنے اپنا مہينہ مكمل كر ليا، ليكن اس ملك كے باشندوں نے چاند نہ ديكھا تو وہ بھى ان كے ساتھ ہى روزہ ركھےگا ” انتہى.

ديكھيں: الانصاف ( 3 / 273 ).

اس حكم كو بيان كرنے ميں ہمارى اس ويب سائٹ پر دور حاضر كے بہت سے علماء كرام كے فتاوى جات بھى نقل كيے گئے، آپ انہيں ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 38101 ) اور ( 45545 ) اور (71203 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس سے حاصل يہ ہوا كہ:

صحيح يہى تھا كہ آپ روزہ ركھتے اور اس دن كا روزہ مكمل كرتے كيونكہ يہ رمضان كى يكم تاريخ تھى، اس ليے كہ آپ ايسے ملك ميں تھے جہاں چاند نظر آ چكا تھا، اس ليے آپ كے ليے روزہ ركھنا واجب تھا، چاہے آپ اسى روز اپنے ملك ـ جہاں ابھى رمضان كا چاند نظر آنے كا اعلان نہيں ہوا تھا ـ چلے جائيں.

پھر جب آپ اس ملك چلے گئے جو پہلے ملك سے چاند نظر آنے ميں ايك دن پيچھے ہے تو آپ وہاں كے لوگوں كے ساتھ روزے ركھنے كا اہتمام كرنا لازم ہے، چاہے آپ كے روزے اكتيس بھى ہو جائيں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android