ہمارے ہاں صوفی نظریات کا حامل امام مسجد ہے؛ تو کیا اس کے پیچھے نماز ہو جائے گی؟
صوفیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم
سوال: 93150
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
ایسے صوفی نظریات، اقوال اور اعمال جن کے بارے میں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں رہنمائی نہ ہو تو ان میں سے کچھ تو کفریہ بدعات ہیں اور کچھ ایسی بدعات ہیں کو کفریہ نہیں ہیں؛ لہذا اگر امام میں کفریہ بدعات پائی جاتی ہوں تو اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جائے گی نہ ہی وہ صاحب عزت و کرامت متصور ہو گا، اور اگر اس میں کفریہ بدعات نہیں پائی جاتیں تو پھر اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے، تاہم اس کے علاوہ کسی اور اہل سنت کے پیچھے نماز ادا کرنا بلا شک و شبہ اعلی اور افضل ہو گا۔
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
اگر میں کسی گاؤں میں جاؤں اور وہاں کا امام صوفی ہو ، نماز میں ہاتھ بھی نہ باندھے ، سجدے میں جاتے ہوئے اپنے گھٹنوں کو ہاتھوں سے پہلے زمین پر نہ رکھے تو کیا میری اس کے ساتھ نماز جائز ہو گی؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“اگر وہ صوفی موحد ہو مشرک نہ ہو البتہ جاہل ہو یا غالی قسم کا صوفی نہ ہو لیکن مسلمان موحد ہو ، صرف ایک اللہ کی بندگی کرنے والا ہو ، اپنے مشائخ کی بندگی نہ کرتا ہو اور نہ ہی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ وغیرہ جیسے کسی اور بزرگ کی بندگی کرتا ہو تو اس شخص کا نماز میں ہاتھ نہ باندھنا اس امر کا متقاضی نہیں ہے کہ اس کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے؛ کیونکہ نماز میں ہاتھ باندھنا سنت ہے واجب نہیں ہے، نماز میں ہاتھ باندھنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ انسان اپنی دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر رکھ کر کلائیوں کو نماز کے دوران قیام کی حالت میں سینے پر رکھے، لہذا اگر کوئی شخص ہاتھ نہیں باندھتا تو اس کی نماز صحیح ہے اس میں حرج نہیں ہے۔۔۔”
فتاوی شیخ ابن باز ” ( 12 / 120 ، 121 )
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے ایک اور سوال پوچھا گیا کہ:
ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے جو بزرگوں کی قبروں پر برکت حاصل کرنے کے لیے جاتا ہے یا میلاد وغیرہ کے موقع پر قرآن کی تلاوت کرتا ہے اور اس پر اجرت بھی لیتا ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:
“اس میں کچھ تفصیل ہے کہ اگر شرک کے بغیر صرف میلاد ہی مناتا ہے تو یہ شخص بدعتی ہے، اس لیے اس کو [مسجد کا مستقل] امام نہیں ہونا چاہیے؛ کیونکہ صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (اپنے آپ کو دین میں نت نئے امور سے بچاؤ؛ کیونکہ [دین میں] تمام نت نئے امور بدعت ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے)[ اس روایت کو بو داود ( 3991 ) نے نقل کیا ہے] میلاد منانا بدعات میں شمار ہوتا ہے۔ لیکن اگر وہ امام مردوں کو پکارے ان سے مدد طلب کرے یا جنوں اور دیگر مخلوقات سے مدد مانگے اور کہے: “یا رسول اللہ مدد” یا کہے کہ: “یا رسول اللہ ہمارے مریض کو شفا دے دیجیے” یا کہے : “یا حسین ” یا کہے: “یا سید بدوی” یا دیگر کسی بھی فوت شدہ شخصیت کو پکارے یا بتوں کی طرح جمادات کو پکارے اور ان سے مدد طلب کرے تو ایسا شخص مشرک ہے اور شرک اکبر کا مرتکب ہے، ایسے شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جا سکتی اور نہ ہی اس کی امامت صحیح ہو گی -اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھے- لیکن اگر وہ بدعت کا ارتکاب کرتا ہے مثلاً میلاد میں شریک ہوتا ہے لیکن شرک نہیں کرتا ، یا قبرستان میں جا کر قرآن خوانی کرتا ہے، یا قبروں کے پاس نماز پڑھتا ہے لیکن شرک نہیں کرتا، تو یہ امور اس کی جانب سے دین میں اضافہ ہیں، اس لیے اسے صحیح تعلیمات دی جائیں، بھلائی کا حکم دیا جائے اور ایسے شخص کی نماز صحیح ہے اگر وہ قبرستان میں نہیں پڑھ رہا، لیکن اگر وہ قبرستان میں نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے انہوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا) متفق علیہ”
فتاوی شیخ ابن باز ” ( 9 / 373 ، 374 ) و ( 12 / 108 ، 109 )
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب