0 / 0

خاوند اور بيوى كا ايك دوسرے سے حسن سلوك اور احسان كرنے كا اجروثواب

سوال: 88353

اگر كوئى نيك و صالح بيوى اپنے خاوند سے محبت ركھتى ہو اور اس كى عزت كى حفاظت كرے اور خاوند كے ساتھ اس طرح معاملات كرے جس طرح كسى چھوٹے بچے كے ساتھ بڑى رحمدلى و محبت كے ساتھ كيے جاتے ہيں، اور خاوند كو ہر طرح خوش ركھنے كى كوشش كرتى ہو، اور خاوند بھى اس سے بہت خوش ہو تو ايسى بيوى كو كيا اجروثواب حاصل ہوگا، اور اسى طرح اگر كوئى خاوند اپنى بيوى سے بالكل ايسا ہى معاملہ كرتا ہے تو اسے كيا اجروثواب حاصل ہوگا ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

ميرى اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے وہ آپ دونوں كى آپس ميں محبت و مودت كو قائم و دائم ركھے، اور سب مسلمانوں كے گھروں كو بھى بالكل اسى طرح محبت و مودت سے بھر دے جس طرح آپ كے گھر ميں حسن معاشرت پائى جاتى ہے.

ميرى سوال كرنے والى بہن: ميں آپ كو وہ بہت سارى خوشخبرياں سنانا چاہتا ہوں جو ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے اس بيوى كے متعلق بتائى ہيں جس كى حالت آپ نے اپنے سوال ميں بيان كى ہے:

عبد الرحمن بن عوف رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب عورت نماز پنجگانہ كى پابندى كرتى ہو اور رمضان المبارك كے روزے ركھتى ہو، اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے، اور اپنے خاوند كى اطاعت و فرمانبردارى كرتى ہو، تو اسے كہا جائيگا كہ تم جس بھى دروازے سے چاہو جنت ميں داخل ہو جاؤ "

مسند احمد ( 1 / 191 ) مسند احمد كے محققين حضرات نے اس حديث كو حسن لغيرہ قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1932 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كيا ميں تمہارے ايسے مردوں كے متعلق نہ بتاؤں جو جنتى ہيں ؟

ہم نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ كيوں نہيں ہميں ضرور بتائيں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نبى جنت ميں ہيں، اور صديق جنت ميں ہيں، اور وہ شخص جو مصر والى سائڈ پر اپنے كسى بھائى سے صرف اللہ كے ليے ملاقات كرنے جاتا ہے وہ جنت ميں ہے.

كيا ميں تمہيں تمہارى ايسى عورتوں كے بارہ ميں نہ بتاؤں جو جنتى ہيں ؟

ہم نے عرض كيا اے اللہ كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيوں نہيں ہميں ضرور بتائيں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

وہ عورت جو زيادہ محبت كرنے والى اور زيادہ اولاد پيدا كرنے والى ہو جب ناراض ہو جائے يا اس سے برا سلوك كيا جائے يا پھر اس كا خاوند ناراض ہو جائے تو وہ عورت كہے يہ ميرا ہاتھ تيرے ہاتھ ميں ہے، ميں تو اس وقت تك آرام نہيں كرونگى جب تك تم راضى نہيں ہو جاتے "

اسے امام طبرانى نے المعجم الاوسط ( 2 / 206 ) ميں روايت كيا ہے، يہ كئى اور صحابہ كرام سے بھى مروى ہے اسى ليے علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 3380 ) ميں اور صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1942 ) ميں حسن قرار ديا ہے.

اور حصين بن محصن رضى اللہ تعالى عنہ اپنى پھوپھى سے بيان كرتے ہيں وہ بيان كرتى ہيں كہ:

" وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس كسى كام كے ليے گئيں تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى وہ ضرورت پورى كر دى اور فرمايا:

" كيا تمہارا خاوند ہے ؟

تو انہوں نے عرض كيا: جى ہاں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تم اس كے ليے كيسى ہو ؟

تو وہ عرض كرنے لگيں: ميں اس كے حق ميں كوئى كوتاہى نہيں كرتى، الا يہ كہ جس سے ميں عاجز آ جاؤں .

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تم يہ خيال ركھنا كہ تم اس كے ليے كيسى ہو، كيونكہ وہ ( يعنى تمہارا خاوند ) تمہارى جنت يا جہنم ہے "

اسے امام احمد نے مسند احمد ( 4 / 341 ) ميں روايت كيا ہے، مسند احمد كے محققين نے اس كى سند كو حسن كا احتمال ديا ہے.

اور امام منذرى نے اس كى سند كو جيد قرار ديا ہے، اور امام حاكم نے مستدرك حاكم ( 6 / 383 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1933 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

فيض القدير ميں المناوى رحمہ اللہ لكھتے ہيں:

" يعنى تيرے جنت ميں داخل ہونے كا سبب يہ ہے كہ خاوند تجھ سے راضى ہو، اور تيرے جہنم ميں داخل ہونے كا سبب يہ ہے كہ خاوند تجھ سے ناراض ہو، اس ليے تم اپنے خاوند كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو، اور جو اللہ كى نافرمانى نہ ہو اس ميں خاوند كے حكم كى مخالفت مت كرو " انتہى

ديكھيں: فيض القدير ( 3 / 60 ).

اور اگر خاوند اپنى بيوى سے حسن معاشرت اور بہتر سلوك كرتا ہے تو اس خاوند كے ليے جو بشارت وارد ہے وہ يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كے كمال ايمان كى گواہى دى ہے جو جنت ميں داخل ہونا واجب كرتا اور اسے سب لوگوں پر افضليت ديتا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مومنوں ميں سب سے كامل ايمان والا وہ شخص ہے جو حسن اخلاق كا مالك ہے، اور تم ميں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنى عورتوں كے ليے اخلاقى طور پر بہتر ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1162 ) ترمذى رحمہ اللہ نے اسے حسن صحيح اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 43123 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android