0 / 0
5,11322/05/2007

دوران وضوء ناك جھاڑتے وقت خون نكلنے كا حكم

سوال: 88040

ميرے ناك ميں زخم ہے اور جب دوران وضوء ناك ميں پانى ڈال كر صاف كروں تو ميرے ناك ميں خون نكلنے لگتا ہے، تو كيا مجھے دوبارہ وضوء كرنا ہوگا، ميرے ليے اس ميں مشقت ہو سكتى ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

علماء كرام كے راجح قول كے مطابق ناك سے خون خارج ہونے كى بنا پر وضوء نہيں ٹوٹتا، امام مالك، شافعى رحمہم اللہ كا مسلك يہى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كئى ايك صحابہ سے بھى يہى مروى ہے.

احناف اور حنابلہ كے ہاں اس سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، اور ہر ايك اس كى تفصيل بيان كرتے ہيں. ليكن حنابلہ كے ہاں شرط يہ ہے كہ خارج ہونے والا خون زيادہ ہو، اور كثرت و قلت ہر انسان كے نفس حساب سے ہوگى.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہمارا مسلك يہ ہے كہ سبيلين ( يعنى پيشاب اور پاخانہ والى جگہ ) كے علاوہ كہيں سے بھى خارج ہونے والى چيز سے وضوء نہيں ٹوٹتا، مثلا سنگى كى وجہ سے خارج ہونے والا خون، قئ اور نكسير چاہے قليل ہو يا كثير، ابن عمر، ابن عباس، ابن ابى اوفى، اور جابر، اور ابو ہريرہ ، اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہم، اور ابن مسيب، سالم، عبد اللہ بن عمر اور قاسم بن محمد، طاؤس، عطاء، مكحول، ربيعۃ، مالك، ابو ثور، داود رحمہم اللہ ان سب كا يہى مسلك ہے.

امام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اكثر صحابہ اور تابيعن كا يہى قول ہے.

اور ايك گروہ كا كہنا ہے:

ان ميں سے ہر ايك چيز خارج ہونے سے وضوء كرنا واجب ہے، امام ابو حنيفہ، ثورى، اوزاعى، احمد اسحاق….. رحمہم اللہ كا يہى مسلك ہے، پھر ان سب كا قليل اور كثير كے فرق ميں اختلاف پايا جاتا ہے" انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 2 / 62 ) مختصرا.

وضوء ٹوٹنے كا كہنے والوں نے ضعيف احاديث سے استدلال كيا ہے، جيسا كہ امام نووى رحمہ اللہ كا كہنا ہے، مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 45666 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

درج ذيل امور كى بنا پر راجح يہى ہے كہ اس سے وضوء نہيں ٹوٹتا:

1 – اصل ميں وضوء نہيں ٹوٹا، اس ليے جو شخص وضوء ٹوٹنے كا دعوى كرتا ہے اسے اس كى دليل دينا ہوگى.

2 – اس كى طہارت شرعى دليل كى بنا پر ثابت ہوئى ہے، اور جو چيز شرعى دليل سے ثابت ہو جائے اسے شرعى دليل كے بغير ختم نہيں كيا جا سكتا.

ديكھيں: الشرح ا لممتع للشيخ ابن عثيمين ( 1 / 166 ).

3 – ابو داود رحمہ اللہ نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ:

" ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ غزوہ ذات الرقاع كے ليے گئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك جگہ پڑاؤ كيا اور فرمانے لگے:

" كون ہے جو ہمارى حفاظت كرے اور پہرہ دے ؟

تو ايك شخص مہاجرين اور ايك شخص انصار ميں سے پہرہ كے ليے تيار ہوا كہ بارى بارى پہرہ دينگے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں كہا كہ وادى كے دھانے پر كھڑے ہو جاؤ، راوى كہتے ہيں:

جب وہ دونوں آدمى وادى كے دھانے پر پہنچے تو مہاجر شخص ليٹ گيا اور انصارى كھڑا ہو كر نماز ادا كرنے لگا، اور مشركوں ميں سے ايك شخص آيا اور اس نے تير مارا تو اس انصارى كو لگا اور انصارى نے اسے نكال كر پھينك ديا، حتى كہ مشرك آدمى نے تين تير مارے پھر انصارى نے ركوع اور سجدہ كيا اور پھر اپنے ساتھى كو اٹھايا، جب مہاجر آدمى نے انصارى كى حالت ديكھى تو كہنے لگا: سبحان اللہ ! تو نے پہلے تير كے وقت ہى مجھے كيوں نہ اٹھايا ؟

تو انصارى كہنے لگا: ميں ايك سورۃ كى تلاوت كر رہا تھا جسے ميں نے مكمل كيے بغير چھوڑنا اور وہيں توڑنا پسند نہ كيا "

سنن ابوداود حديث نمبر ( 198 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابو داود ميں حسن قرار ديا ہے.

يہ اس بات كى واضح دليل ہے كہ خون سے وضوء نہيں ٹوٹتا چاہے خون زيادہ اور كثير ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ اگر اس سے وضوء ٹوٹ جاتا تو وہ انصارى صحابى نماز توڑ ديتا.

امام نووى رحمہ اللہ " المجموع " ميں كہتے ہيں:

" اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا اس كا علم بھى ہوا ليكن آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اس پر كوئى انكار نہيں كيا "

امام بخارى صحيح بخارى ميں كہتے ہيں:

" اور حسن رحمہ اللہ كا كہنا ہے: ہميشہ مسلمان اپنى زخموں ميں ہى نماز ادا كرتے رہے ہيں .

اور طاؤس، محمد بن على، اور عطاء اور اہل حجاز كا كہنا ہے كہ: خون كى بنا پر وضوء نہيں ہے.

اور ايك اثر ميں وارد ہے كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے پھنسى اور دانا كو پھوڑا تو اس سے خون نكلنے لگا اور انہوں نے وضوء نہ كيا.

اور ابن ابى اوفى نے خون تھوكا ليكن اپنى نماز جارى ركھى.

اور ابن عمر رضى اللہ عنہما اور حسن رحمہ اللہ نے سنگى لگوانے والے كے متعلق كہا ہے كہ: ان كے ليے صرف سنگى لگوانے والى جگہ كو دھونے كے علاوہ كچھ لازم نہيں آتا " انتہى.

اور فتح البارى ميں حافظ ابن حجر لكھتے ہيں:

" صحيح ثابت ہے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نماز ادا كرتے رہے اور ان كے زخم سے خون ابلتا رہا "

ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 281 ).

يہ سب كچھ اس بات كى دليل ہے كہ سبيلين كے علاوہ كسى اور جگہ سے خارج ہونے والے خون سے وضوء نہيں ٹوٹتا.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android