0 / 0
11,33314/03/2008

توہين رسالت ميں ہمارا موقف

سوال: 86109

يورپين نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جو توہين كى وہ ہم سب سے سنى، چنانچہ اس سلسلہ ميں ہمارا موقف كيا ہونا چاہيے ؟

اور ہميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا دفاع كس طرح كرنا ہو گا ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

پہلى بات تو يہ ہے كہ ان بےوقوفوں اور مجرموں نے ہمارے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى جو توہين كى ہے، وہ ہمارے ليے بلكہ ہر دينى غيرت ركھنے والے غيور مسلمان كے ليے تكليف دہ ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ايسى شخصيت ہيں جو اس دنيا پر پر قدم ركھنے والوں ميں سب سے افضل و بہتر ہيں، اور وہ سب پہلے اور بعد والوں كے سردار ہيں، اللہ تعالى كى ان پر رحمتيں اور سلامتى ہو.

اس جيسى بےشرمى، اور بے حيائى اور قبيح فعل كا ان سے سرزد ہونا كوئى اچھنبے والى اور بعد كى بات نہيں، يہ اس كے اہل ہيں اور اس كے حقدار ہيں.

پھر يہ برا اور شنيع فعل ـ باوجود اس كے كہ اس سے ہمارے دل اور سنے پھٹ رہے ہيں، اور ہمارے دل غيض و غضب سے بھر رہے ہيں اور ہم چاہتے ہيں كہ ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى جانيں قربان كر ديں ـ مگر ہميں ان كے اس قبيح اور شنيع فعل سے خوش ہيں كيونكہ يہ ان كى ہلاكت اور ان كى حكومت كے زوال كے قرب كى نشانى ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقينا ہم ان كى سزا كے ليے كافى ہيں جو آپ كے ساتھ مسخر پن كرتے ہيں الحجر ( 95 ).

اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين اور ان كا مذاق اڑانے والے مجرموں كو سزا دينے كے ليے اللہ تعالى كافى ہے، اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ بھى فرمان ہے:

بلا شبہ آپ كا دشمن اور آپ سے غضب ركھنے والا شخص ہى لاوارث اور بے نام و نشان ہے الكوثر ( 3 ).

يعنى وہ حقير و ذليل اور ہر خير و بھلائى سے محروم ہے.

اور سيرت و تاريخ ميں يہ واقعہ موجود ہے كہ جب مسلمان كسى قلعہ والوں كا محاصرہ كرتے، اور ان پر فتح مشكل اور دشوار ہوتى، اور پھر وہ ان كفار اور قلع والوں كو سنتے كہ وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو برا كہتے اور ان كى توہين كرتے ہيں، تو وہ مسلمان فتح قريب ہونے كى علامت و بشارت سمجھتے، اور پھر كچھ وقت ہى گزرتا كہ اللہ سبحانہ و تعالى اپنے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كا انتقام ليتے ہوئے اپنى جانب سے مسلمانوں كو فتح و كامرانى نصيب فرما ديتا.

ديكھيں: الصارم المسلول ( 116 – 117 ).

تاريخ اس پر شاہد ہے كہ جس نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كى اور گستاخى كا مرتكب ہوا اس كو ذليل و رسوا كر كے ہلاك كر ديا گيا.

پھر سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ يہ لوگ سيد البشر محمد صلى اللہ عليہ وسلم سے كس چيز كا انتقام لينا چاہتے ہيں ؟!

يہ لوگ اس كا انتقام ليتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اللہ تعالى كى توحيد اور وحدانيت كى دعوت دى، اور يہ لوگ اللہ تعالى كى وحدانيت پر ايمان نہيں ركھتے.

وہ اس كا انتقام ليتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے پروردگار كى تعظيم كى، اور ان افتربردازوں كے اقوال سے اللہ تعالى كو پاك كيا، كيونكہ يہ كفار اللہ تعالى كى طرف بيوى اور اولاد منسوب كرتے ہيں، اللہ تعالى اس سے پاك ہے.

يہ لوگ اس بات كا اتنقام ليتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اخلاق فاضلہ اور اعلى اخلاقيات كى دعوت و تعليم دى، اور برے اخلاق كو اختيار نہيں كيا، اور فضيلت و شرف كى دعوت دى، اور ہر اس دروازے كو بند كيا جو غلط اور فحاشى كى طرف جاتا ہے، اور يہ لوگ اخلاقى بگاڑ اور فحاشى چاہتے ہيں.

يہ لوگ فحاشى اور غلط كاموں ميں غرق ہونا چاہتے ہيں، اور جو انہوں نے چاہا وہى كر دكھايا!

يہ لوگ اس كا اتنقام لے رہے ہيں كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم اللہ تعالى كے رسول ہيں!! حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سب لوگوں ميں سے اپنى رسالت و وحى كے ليے چنا.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نبوت كى نشانياں اتنى زيادہ ہيں كہ شمار ہى نہيں كى جا سكتيں.

كيا ان لوگوں نے چاند دو ٹكڑے ہونے كا واقعہ نہيں سنا ؟

كيا ان لوگوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى انگليوں سے كئى بار پانى كے چشمے جارى ہونے كے متعلق كچھ نہيں سنا ؟

كيا انہوں نے اس كى سب سے بڑى نشانى كے متعلق نہيں سنا كہ يہ قرآن كريم جو رب العالمين كى كلام ہے، جسے اللہ سبحانہ و تعالى نے كئى صدياں بيت جانے كے باوجود اسے تحريف سے محفوظ ركھا ہے، ليكن ان كے انبياء پر نازل كردہ كتابيں تحريف كا شكار ہو چكى ہيں اور ان لوگوں نے خود اس ميں تحريف و تبدل كر ركھا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

ان لوگوں كے ليے ويل و ہلاكت ہے جو اپنے ہاتھوں سے لكھى ہوئى كتاب كو اللہ تعالى كى جانب سے قرار ديتے ہيں، اور اس طرح دنيا كماتے ہيں، ان ہاتھوں كى لكھائى كو ان كى كمائى ويل و ہلاكت اور افسوس ہے البقرۃ ( 79 ).

بلكہ ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے صدق و سچائى كى سب سے بڑى دليل كئى صدياں بيت جانے كے باوجود دين اسلام كا ظاہر و منصور رہنا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى مبارك ميں بھى يہ دين ہميشہ بلندى و ظہور اور دشمنوں پر غالب رہا، اور اللہ سبحانہ و تعالى كى حكمت اس سے انكارى ہے كہ اس پر اور اس كے دين كے بارہ ميں جھوٹ بولنے والا اتنى مدت اس زمين ميں غالب و ظاہر رہے.

بلكہ ان كى كتابوں ميں يہ بات موجود ہے جو ان كے علماء نے چھپا كر ركھى اور اس ميں تحريف كر دى كہ كذاب ( جھوٹا نبى ) كے ليے تيس برس سے زائد باقى رہنا ممكن ہى نہيں پھر اس كا معاملہ ختم ہو جائيگا.

جيسا كہ ان كے ايك بادشاہ كے بارہ ميں بيان كيا جاتا ہے كہ اس كے پاس اس كے ہى دين كو ماننے والا ( نصرانى ) ايك شخص لايا گيا جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كرتا تھا، اور انہيں جھوٹا قرار ديتا تھا، تو اس بادشاہ نے اپنے دين كے علماء كو جمع كيا اور ان سے دريافت كيا:

جھوٹا اور كذاب كتنى مدت تك باقى رہتا ہے ؟

تو انہوں نے جواب ديا: اتنى اتنى مدت تيس برس كى مدت تك، تو بادشاہ كہنے لگا: اور يہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا دين تو پانچ يا چھ سو برس سے بھى زائد تك باقى ہے، ( يعنى اس بادشاہ كے وقت تك ) اور يہ دين ظاہر ہے اور اس كے پيروكار اس كى پيروى كر رہے ہيں، تو پھر يہ جھوٹا اور كذاب كيسے ہو سكتا ہے ؟ پھر اس بادشاہ نے اس شخص كى گردن اتار دى.

شرح العقيدۃ الاصفھانيۃ تاليف شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ

كيا انہيں يہ معلوم نہيں كہ ان كے اكثر دانش مند اور بادشاہ اور علماء تك اس دين اسلام كى صاف اور شفاف دعوت پہنچى تو وہ اس دين كے صحيح ہونے كا اقرار كيے بغير رہ ہى نہ سكے، اور انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم كى، اور بہت ساروں نے تو اسلام قبول كرنے كا اعلان كر ديا.

حبشہ كے بادشاہ نجاشى نے اس كا اقرار كرتے ہوئے اسلام قبول كرنے كا اعلان كر ديا.

اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے روم كے بادشاہ ہرقل كو اسلام كى دعوت ديتے ہوئے خط لكھا تو ہرقل نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نبوت صحيح ہونے كا اقرار كيا، اور اس نے اسلام قبول كرنے كا ارادہ ظاہر كيا اور خواہش كى كہ وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس جا كر آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا خادم اور نوكر بن جائے ليكن اس نے اپنى جان اور اہل ملت كے ڈر سے اسلام قبول نہ كيا اور كفر كى حالت ميں ہى مر گيا.

معاصرين عيسائيوں اور يہوديوں ميں سے بھى آج تك بہت سارے افراد اس كا اعلان بھى كر رہے ہيں:

1 – مائيكل ہارٹ اپنى كتاب ” سو ہميشہ رہنے والے ” كے صفحہ 13 پر لكھتا ہے، اس ميں اس نے سب سے پہلے نمبر پر ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو ذكر كيا ہے:

ميں نے اس فہرست ميں سب سے پہلے نمبر پر محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو اس ليے چنا ہے كہ …… كيونكہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم ہى انسانى تاريخ وہ واحد شخص ہيں جو دينى اور دنياوى طور پر مكمل كامياب رہے.

2 – اور انگريز پرنارڈشو جسے برطانوى حكومت نے جلا كر ہلاك كر ديا تھا وہ اپنى كتاب ” محمد صلى اللہ عليہ وسلم ” ميں لكھتا ہے:

” پورى دنيا محمد صلى اللہ عليہ وسلم جيسے مرد كى سوچ كى محتاج ہے، قرون وسطى كے دينى افراد نے جہالت يا تعصب كى بنا پر محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے دين كا غلط تصور پيش كيا ہے، اور وہ اسے عيسائيت كا دشمن تصور كرتے رہے ہيں، ليكن ميں نے تو اسے ايسا شخص پايا ہے جو بڑا صابر اور بہت عجيب ہے، جس سے ميں اس فيصلہ پر پہنچا ہوں كہ يہ شخص عيسائيت كا دشمن نہيں تھا.

بلكہ اسے بشريت كا نجات دہندہ كہنا ضرورى ہے، اور ميرى رائے تو يہ ہے كہ اگر وہ آج دنيا كا حكمران بن جاتا تو ہمارى سارى مشكلات حل كر ديتا، جس سے امن و امان اور سعادت حاصل ہوتى جسے بشريت ٹكٹكى باندھے ديكھ رہى ہے.

3 – اور آئن پيزٹ كہتا ہے:

” جو شخص عرب كے عظيم نبى ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى سيرت كا مطالعہ كرتا ہے، اور اسے اس نبى كى طرز زندگى اور معيشت كا علم ہو اور يہ جانتا ہو كہ اس نے لوگوں كو كيسے تعليم دى تو ايسے شخص كے ليے مستحيل ہے كہ وہ اس جليل القدر نبى كى عظمت اور اسے عظيم رسولوں ميں سے ايك عظيم رسول محسوس نہ كرے ”

4 – شبرك نمساوي كہتا ہے:

” محمد صلى اللہ عليہ وسلم جيسے شخص كى طرف منسوب ہونے پر بشريت كو فخر ہے، ان پڑھ ہونے كے باوجود وہ شخص چودہ صدياں قبل ايسى شريعت لا سكا جب ہم يورپى لوگ اس كى بلندى تك پہنچ سكيں تو ہمارے ليے بہت ہى سعادت مندى ہے ”

5 – كينڈين متشرق ڈاكٹر زويمر لكھتا ہے:

” محمد صلى اللہ عليہ وسلم بہت بڑا اور قدر والا مصلح اور فصيح و بليغ، اور بڑا بہادر و شجاع اور كمانڈو اور عظيم مفكر تھا، ان صفات كے منافى كوئى بھى بات اس كى جانب مسنوب كرنى جائز نہيں.

اور اس كا يہ قرآن مجيد جسے وہ لايا اور تاريخ دونوں اس كے دعوى كے صحيح ہونے كے شاہد ہيں ”

6 – اگريز فلسفى ٹامس كارليل جو نوبل انعام يافتہ ہے اپنى كتاب ” ہيروز ” ميں لكھتا ہے:

” اس زمانے ميں كسى بھى بات چيت كرنے والے شخص كے ليے يہ بہت بڑى عار بن چكى ہے كہ كہا جائے: دين اسلام جھوٹا دين ہے، اور محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) دھوكہ باز اور جعل ساز تھا ”

ہم نے ديكھا ہے كہ وہ اپنى سارى زندگى ابتدائى رسوخ اور صدق عزم اور بہت نيك و سخى و كريم، اور رحم دل متقى فاضل آزاد ، مرد بہت كد و كاوش كرنے والا اور مخلص شخص تھا، ليكن اس كے ساتھ ساتھ بہت نرم خو اور آسان پہلو كا مالك، بشريت كو اكٹھا كرنے والا بہت اچھى زندگى بسر كرنے والا، الفت و محبت كا منبع تھا، بلكہ بعض اوقات تو وہ ہنسى و مزاح اور كھيل كود بھى كرتا تھا.

وہ بہت عدل و انصاف والا، سچى نيت كا مالك اور بہت ذہين اور فہم و فراست كا مالك، ذكى، اور سريخ الخاطر تھا، گويا كہ اس كے سامنے چراغ روشن ہے سارى رات روشن ہے، نور سے پر ہے، وہ عظيم الفطرت مرد تھا، نہ تو اس نے كسى مدرسہ اور سكول پڑھا، اور نہ ہى كسى استاد و معلم نے اسے سكھائى كيونكہ وہ اس سے غنى تھا ”

7 – جرمن اديب جوٹا كہتا ہے:

” ہم سب يورپين لوگوں اپنى فہم و فراست كے باوجود ابھى وہاں تك نہيں پہنچ سكے جہاں محمد صلى اللہ عليہ وسلم پہنچ چكا تھا، اور ان سے آگے كوئى بڑھ بھى نہيں سكتا، ميں نے تاريخ كا مطالعہ كيا اور كسى اعلى انسان كى مثال تلاش كى تو وہ مجھے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم ميں نظر آئى، اور اسى طرح حق كا ظاہر اور بلند ہونا ضرورى و واجب ہے، جس طرح محمد صلى اللہ عليہ وسلم كامياب ہوئے جنہوں نے سارى دنيا كو كلمہ توحيد پر جمع اور اپنے مطيع كر ليا “

اگر تو يہ ايسے ہى تھا تو پھر سارى دنيا كے ليے ـ اور اس كے بغير ان كے ليے كوئى چھٹكارا بھى نہيں ـ واجب اور ضرورى ہے كہ وہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم و عظمت سارى مخلوق سے زيادہ كريں، اور اس كى عزت و احترام ہر كسى كى عزت و تكريم سے زيادہ ہونى چاہيے، اور سارى دنيا كے ليے ضرورى ہے كہ وہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى رسالت پر ايمان لائيں اور يہ كہ وہ اللہ تعالى كے انبياء كرام ميں آخرى نبى اور خاتم الانبياء ہيں.

اور ہم اسے موقع غنيمت سمجھتے ہوئے ان لوگوں كو اسلام قبول كرنے كى دعوت ديں، كيونكہ ان لوگوں كے ہاتھوں جو جرم سرزد ہوا ہے وہ اسلام قبول كرنے سے ہى مٹ سكتا ہے، ليكن اگر يہ لوگ تكبر اور دشمنى كرتے ہوئے اپنے كيے پر اصرار كرتے اور توہين رسالت پر مصر رہتے ہيں تو پھر انہيں آگ كے عذاب كى نويد سن لينى چاہيے كہ وہ ہميشہ ہميشہ جہنم كے عذاب ميں جلتے رہينگے:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقين جانو كہ جو شخص اللہ كے ساتھ شريك كرتا ہے اللہ تعالى نے اس كے ليے جنت حرام كر دى ہے، اور اس كا ٹھكانہ جہنم ہ ہے، اور گنہگاروں كى مدد كرنے والا بھى كوئى نہيں ہو گا المآئدۃ ( 72 ).

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

اور جو كوئى بھى دين اسلام كے علاوہ كوئى دوسرا دين تلاش كريگا، اس كا دين قبول نہيں كيا جائيگا، اور وہ آخرت ميں نقصان پانے والوں ميں سے ہو گا آل عمران ( 85 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جان ہے اس امت ميں سے كوئى بھى يہودى اور عيسائى ميرا سنے اور ميرى رسالت اور دين پرايمان لائے بغير مر جائے تو وہ جہنمى ہے ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 153 ).

دوم:

اللہ سبحانہ و تعالى حكيم قدير ہے، وہ ايسى چيز مقدر نہيں كرتا جو صرف خالصتا شر ہو، بلكہ اس ميں مومن بندوں كے ليے كوئى نہ كوئى ضرور خير و بھلائى ہوتى ہے، چاہے لوگوں كے ليے وہ جتنى بھى برى ظاہر ہوتى ہو، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سچ فرمايا تھا:

” مومن كا معاملہ بڑا ہى عجيب ہے اس كا سارا معاملہ ہى خير و بھلائى پر مشتمل ہے، اور يہ مومن كے علاوہ كسى دوسرے كے ليے نہيں، اگر اسے اچھائى اور بہترى حاصل ہوتى ہے تو وہ اس پر شكر كرتا ہے تو يہ اس كے ليے خير و بھلائى ہے، اور اگر اسے كوئى تكليف اور اذيت پہنچتى ہے تو وہ اس پر صبر كرتا ہے تو يہ اس كے ليے بہتر اور اچھائى ہے ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2999 ).

ديكھيے حادثہ افك يعنى عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا پر بہتان والا واقعہ معروف ہے جس كے متعلق اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تم اسے اپنے ليے برا اور شر نہ سمجھو، بلكہ يہ تو تمہارے حق ميں بہتر ہے، ہاں ان ميں سے ہر ايك شخص كو اتنا گناہ ہے جتنا اس نے كمايا ہے، اور ان ميں سے جس نے اس كے بہت بڑے حصے كو سرانجام ديا ہے اس كے عذاب بھى بہت بڑا ہے النور ( 11 ).

اس گناہ اور جرم كے نتيجہ ميں مرتب ہونے والى مصلحتيں ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:

1 – ان مجرموں كے دلوں ميں مسلمانوں كے خلاف حسد و بغض اور كينے كا اظہار، اگرچہ انہوں نے بہت سارے حالات ميں يہ ظاہر بھى كيا تھا كہ وہ صلح كر چكے ہيں اور معاہد ميں شامل ہيں:

فرمان بارى تعالى ہے:

ان كى عداوت و دشمنى تو ان كى زبانوں سے ظاہر ہو چكى ہے، اور جو سينوں ميں پوشيدہ ہے وہ اس سے بھى بہت زيادہ ہے آل عمران ( 118 ).

2 – يورپ كے معيار ميں فراڈ كا انكشاف ہوتا ہے، ايك طرف تو وہ حريت رائے كى دليل ديتے ہيں، ہر عقلمند شخص كو علم ہے كہ يہ مزعوم حريت رائے دوسروں كى حرمت اور ان پر زيادتى كے وقت موقوف ہو جاتى ہے، اس وقت كوئى حريت رائے نہيں، بلكہ دوسروى كى عزت ضرورى ہے، اور وہ اپنے اس حريت رائے كے دعوى ميں بھى جھوٹے ثابت ہوئے ہيں.

ابھى چند برس قبل ہم نے ديكھا اور ہر كسى كو ياد ہے كہ جب ايك حكومت نے اپنے ہاں موجود بت اور مجسمے توڑے تو كيا ہوا، ان لوگوں نے پورى دنيا سر پر اٹھا لى اور اسے بيٹھنے ہى نہيں ديا بلكہ اس حكومت كو ختم كر كے دم ليا!!

تو پھر يہ مزعوم حريت رائے كہاں گئى ؟ ! تو انہوں نے اسے بھى حريت رائے ميں شمار كيوں نہ كيا؟!

3 – ہمارے اپنے وہ مسلمان افراد جو يورپى بنتے پھرتے ہيں ان كا يہ دعوى بھى باطل ہو جاتا ہے كہ: تم غير مسلموں كو كافر مت كہو بلكہ كوئى اور كہو تا كہ ہمارے اور ان كے درميان فتنہ كى آگ نہ بھڑك اٹھے.

سب كو علم ہونا چاہيے كہ كون ہے جو دوسروں كو برا كہتا اور ناپسند كرتا ہے، اور اس كى عزت و ناموس كا پاس نہيں كرتا، بلكہ جب بھى كوئى موقع ہاتھ آئے تو وہ اس كے خلاف اعلان جنگ كر ديتا ہے.

4 – ان كے اس دعوى كى بھى تكذيب ہوتى ہے جس كا انہوں نے پورى دنيا ميں ڈھنڈورا پيٹ ركھا ہے كہ: ترقى يافتہ بات چيت اور مذاكرات جو دوسروں كے احترام اور كسى دوسرے پر زيادتى نہ كرنے پر قائم ہے!! تو وہ كونسى بات چيت اور كونسے مذاكرات چاہتے ہيں؟ اور كونسے احترام كا گمان كرتے ہيں؟

وہ يہ چاہتے ہيں كہ ہم مسلمان ان كى ادب و احترام كريں، اور ان كى تعظيم بجا لائيں، بلكہ ان كے سامنے جھكيں، اور سجدہ كريں، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ كفار ہمارا اور زيادہ مذاق اڑائينگے، اور ہمارى اور زيادہ توہين كريں، اور ہم پر ظلم و ستم ہى كرينگے!!!

5 – مسلمانوں كے دل ميں ايمانى شرارہ كا احياء، ہم نے اس كا رد عمل ديكھا جو مسلمانوں كے دل ميں ايمان راسخ ہونے كى دليل ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ان كى محبت كى انتہاء ہے، حتى كہ ايسے لوگ جو دين طور پر پتلے ہيں اور ان ميں كوتاہياں بھى پائى جاتى ہيں وہ بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا دفاع كرنے اور توہين رسالت كے خلاف اٹھ كھڑے ہوئے، بلكہ وہ سب سے آگے تھے.

6 – مسلمانوں كى صفوں ميں اتحاد پيدا ہوا ہے.

ہم نے ديكھا كہ مسلمان آپس ميں متحد ہوئے، اور وہ اسى ايك موقف پر قائم ہوئے چاہے ان كے ملك اور زبانيں مختلف تھيں.

7 – اسلام كے خلاف يورپ كا اتحاد.

جيسے ہى اس ملك نے مدد طلب كى تو يہ سب كفار ممالك متحد ہو كر اس كے ساتھ مل كھڑے ہوئے، اور مجرموں نے ايك دوسرے كو اپنے اخبارات و ميگزين ميں يہ خاكے شائع كرنے كا كہا، تا كہ مسلمانوں كو علم ہو جائے كہ يہ كفار سب ايك ہى جوہڑ كے مينڈك ہيں، اور ہم مسلمان لوگ ان سب كا مقابلہ نہيں كر سكتے.

8 – بعض مسسلمانوں كى جانب سے ان كفار كو اسلام كى دعوت دينے كى حرص ركھنا، اور اس دين حنيف كى حقيقى اور روشن صورت ببيان كرنا.

ہم نے ديكھا كہ مسلمان ان كى زبان ميں اسلامى كتابيں طبع كرانے ميں ايك دوسرے سے آگے نكلنے كى كوشش كر رہے ہيں، تا كہ ان كفار كى آنكھوں سے پردہ ہٹ جائے تو ہو سكتا ہے يہ لوگ بصيرت اختيار كرتے ہوئے حق ديكھنے لگيں.

9 – توہين كرنے والوں كى اشياء كا جو مسلمانوں نے بائيكاٹ كيا تھا اس كى تيزى اور نتيجہ:

ان ملك كى حكومت نہ تو رسمى يا سياسى احتجاج سے ہلى چاہے يہ احتجاج كتنے بھى بڑے پيمانے پر ہوتا، ليكن اس بائيكاٹ كا نتيجہ يہ نكلا كہ ابھى بائيكاٹ كو چند روز ہى ہوئے تھے اس اخبار كے اڈيٹر نے معذرت كرنا شروع كر دى، اور اپنى كلام كا اسلوب تك بدل ليا، اور مسلمانوں كے ساتھ اس كا رويہ كچھ نہ كچھ نرم ہو گيا.

تو اس طرح مسلمانوں كے پاس ايك نيا ہتھيار اوراسلحہ لگا جس كے استعمال سے وہ اپنے دشمن پر اثرانداز ہو سكتے ہيں، اور انہيں اس طرح معاشى و اقتصادى نقصان پہنچا سكتے ہيں.

10 – يورپ كو واضح پيغام دينا كہ ـ ہم مسلمان ـ كبھى بھى راضى نہيں كہ ہمارے دين كو چھيڑا جائے، يا پھر اس كے خلاف بات كى جائے اور توہين كا مرتكب ہوا جائے، يا ہمارے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى توہين كى جائے اور ان كے خلاف زبان كھولى جائے، ہم سب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر فدا ہيں، يہيں نہيں كہ ہم ہى بلكہ ہمارے ماں باپ بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر قربان ہيں.

كيونكہ ميرے والدين اور ميرى عزت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى عزت پر فداء و قربان ہيں.

سوم:

اس ميں ہمارا كيا دور اور عمل ہونا چاہيے:

1 – ہم سب كے ليے ضرورى ہے كہ وہ حسب استطاعت جتنى بھى طاقت ركھتا ہے اور جس طرح بھى طاقت ركھتا ہے وہ اس برائى كے خلاف اٹھ كھڑا ہو، چاہے وہ ان كى حكومت اور وزارت خارجہ اور ان كے اخبارات اور ميگزين كو خط لكھ كر يا پھر كوئى كالم وغيرہ لكھ كر بھيجے يا پھر ٹيلى فون كرے.

2 – ان لوگوں سے واضح اور حقيقى اور سچى معذرت كرنے كا مطالبہ كيا جائے، نہ كہ دھوكہ و فراڈ پر مشتمل اور جرم سے برى ہونا جسے وہ معذرت كا نام ديتے پھرتے ہيں، ہم ان كفار سے مسلمانوں كى توہيں و اہانت كے ليے معذرت نہيں چاہتے، بلكہ ہم يہ چاہتے ہيں وہ اپنى اس غلطى كا اقرار كريں اور اس غلطى كى معذرت كريں.

3 – ان سے مطالبہ كيا جائے كہ وہ ان مجرموں كو ان كے جرم كى سزا ديں.

4 – ان سے يہ بھى مطالبہ كيا جائے كہ ان كى حكومتيں اسلام اور مسلمانوں كى دشمنى كرنا ترك كر ديں.

5 – اسلام كى دعوت پر مبنى كتب كا ان كفار كى زبان ميں ترجمہ كر كے شائع كى جائيں، اور وہ كتابيں جن ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت طيبہ اور اسلام كا تعارف اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم كا تعارف ہے بھى ترجمہ كرا كر شائع كى جائيں.

6 – ٹيلى ويژن اور ريڈيو ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دفاع كے ليے پروگرام نشر كيے جائيں اور اس كے ليے اگر اجرت بھى دينا پڑے تو گريز نہ كيا جائے، اور ان پروگراموں ميں خاص كر ان لوگوں كو دعوت دى جائے جو علمى رسوخ ركھتے ہوں، اور يورپيوں كو عقلى طور پر مطمئن كر سكتے ہوں، الحمد للہ اسے افراد بہت ہيں.

7 – اخبارات اور ميگزين اور مجلات اور ويب سائٹس پر مختلف زبانوں ميں علمى طور پر قوى مضامين لكھے جائيں.

8 – اور اگر ان ملكوں كى اشياء كے بائيكاٹ ميں اثر ہو ـ اور واقعتا اس ميں اثر موجود ہے ـ تو پھر ہم ان كى اشياء كا بائيكاٹ كيوں نہ كريں، بلكہ ہميں اس كے مقابلے ميں دوسرى كمپنيوں كى اشياء تلاش كرنى چاہيے جو مسلمانوں كى ملكيت ہوں ؟

9 – دين اسلام اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے خلاف اس حملہ كو روكنے كے ليے پورا زور صرف كيا جائے، اور اسلام اچھائياں بيان كى جائيں، اور بتايا جائے كہ اسلام صريح عقل كے موافق ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ مجرموں كے شبہات كا رد بھى كيا جائے.

10 – سنت نبويہ كا التزام كيا جائے، اور ہر معاملہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر چلا جائے، اور اس پر صبر كيا جائے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تم صبر كروگے اور تقوى اختيار كرو گے تو تمہيں ان كى چاليں اور مكر كوئى نقصان نہيں پہنچا سكتيں آل عمران ( 120 ).

11 – ان كفار كو دعوت دين كى حرص ركھيں.

اگرچہ ہم انہيں غيض و غضب اور ناراضگى كى آنكھ سے ديكھتے ہيں، ليكن ہميں ان كو شفقت كى نظر سے بھى ديكھنا چاہيے كہ كہيں وہ اس كفر كى حالت ميں ہى نہ مر جائيں، اور جہنم ميں داخل نہ ہو جائيں ہميں چاہيے كہ ہم انہيں اسلام كى دعوت ديں، اور ان پر رحم اور شفقت كرتے ہوئے انہيں كاميابى و نجاب كى طرف بلائيں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ اپنے دين كو سربلند فرمائے، اور اپنے دوستوں كى مدد و نصرت فرمائے، اور اپنے دشمنوں كو ذليل و رسوا كرے.

اللہ سبحانہ و تعالى اپنے معاملہ پر غالب ہے، ليكن اكثر لوگ علم نہيں ركھتے.

اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ تعالى اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android