0 / 0
23,09321/12/2007

پورا خاندان ايك ہى گھر ميں رہے تو كيا عورت سارا دن نقاب پہن كر ركھے

سوال: 85163

ميں اپنے خاوند كے ساتھ ديور اور ساس كے ساتھ سسرالى گھر ميں رہتى ہوں، اس ليے كہ ہمارے پاس كوئى ملازم نہ ہونےكى بنا پر ہمارے ہاں عادت اور رواج ہے كہ عورت ہى گھر كے كام كاج كرتى ہے، اور بعض اوقات اس ميں مشكل اعمال بھى شامل ہوتے ہيں، جس كى بنا پر عورت حجاب ميں تخفيف كى ضرورت محسوس كرتى ہے.
ايك اور مشكل يہ ہے كہ گھر كا دروازہ ہر وقت كھلا رہتا ہے، اور گھر ميں كسى بھى رشتہ دار مثلا چچا ماموں وغيرہ كو بغير اجازت داخل ہونے كى اجازت ہے!!
اسى طرح جب ہم بالكونى كى صفائى كرتے ہيں تو ہمارے پڑوسى اور سڑك كے سب لوگوں كى نظر پڑتى ہے، تو كيا گھر سے باہر نكلتے وقت ہى ہمارے ليے نقاب كرنا صحيح ہے، يا كہ گھر ميں بھى صبح سے ليكر شام تك نقاب كرنا ہوگا، يہ علم ميں رہے كہ ايسا كرنا ہمارے ليے بہت مشكل ہے ؟
يہ بھى علم ميں رہے كہ ہمارے ليے مخصوص فليٹ تو ہے ليكن ہم وہاں صرف سونے يا خاص موقع كے وقت ہى جاتے ہيں!! يہ حالت ميرى اكيلى ہى كى نہيں بلكہ بہت سارى عورتيں جو شرعى پردہ كرنا چاہتى ہيں ان كى بھى يہى حالت ہے، ہميں كيا كرنا چاہيے، اللہ تعالى آپ كو عزت سے نوازے ہميں اس كے متعلق معلومات فراہم كريں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

جيسا آپ نے بھى كہا ہے كہ يہ مشكل صرف اكيلى آپ كے ليے ہى نہيں بلكہ بہت سارے لوگوں كو يہى مشكل درپيش ہے جو بعض ان ممالك ميں بستے ہيں جہاں معاشرتى حالات اس طرح كى مختلط زندگى بسر كرنے كى اجازت ديتے ہيں، جہاں انسان شادى كے بعد اپنے خاندان كے ساتھ ايك ہى گھر ميں رہتا ہے، جس كا معنى يہ ہوا كہ بيوى بھى اسى گھر ميں رہےگى جہاں خاوند كے دوسرے رشتہ دار يعنى بھائى اور بھتيجے وغيرہ رہتے ہيں.

ہم آپ كے ساتھ متفق ہيں كہ يہ حالت بہت سارى مشكلات اور حرج كا باعث بنتى ہے، اور اس طرح كى حالت ميں شرعى پردہ اور شرعى آداب كا خيال كرنا بہت ہى زيادہ مشكل اور مشقت كا كام ہے؛ سوال كرنے والى بہن ہم آپ كو بھى يہى كہتے ہيں كہ:

بہت سارى عورتيں جو اپنے پردہ كا خاص خيال كرتى ہيں، اور اپنے پروردگار كى حدود كى حفاظت كرتى ہيں، ان كے ليے اس طرح كى مشكل ترين حالت پر كنٹرول كرنا ممكن، اور اللہ كى حدود كا التزام كرنا ممكن ہے باوجود مشقت اور مشكل كے جو انہيں حاصل ہوتى ہے، اور جسے ہم بھى جانتے ہيں.

اور اگر يہ حالت يعنى مشتركہ معيشت اور رہن سہن پسند نہ ہو جس سے موجودہ وقت ميں فرار ممكن نہيں، جيسا كہ اكثر اوقات حال ہے تو ہم اندر سے گھر كا دروازہ بند كر كے اسكى محافظت كر كے رہائش كر سكتے ہيں، اور اس طرح آپ كے ليے اوردوسرى عورتوں كے ليے بھى ممكن ہو گا كہ جب كوئى مرد گھر ميں داخل ہو تو آپنا حجاب اور پردہ پہن ليں يا پھر غير محرم مرد كى گھر ميں موجودگى كے وقت، ليكن اس كے ساتھ آپ يہ بھى خيال ركھيں كہ حتى الامكان آپ اس كے ساتھ اكيلى كمرہ يا كسى بند جگہ پر نہ ہوں، چاہے آپ نے پردہ بھى كر ركھا ہو پھر بھى نہيں.

اور اس مشكل ميں آپ كے خاوند كا بھى حق اور كام ہے كہ وہ اپنے بھائى اور باقى دوسرے مرد اقرباء كو متنبہ كرے كہ وہ اس ادب كا خاص كر خيال كريں،كيونكہ يہ اللہ كى حدود ميں سےايك حد ہے، جس سے تجاوز كرنے كا ہميں كوئى حق حاصل نہيں، اور نہ ہى كسى بھى شخص كے ليے اس سے كھيلنا جائز ہے.

خاوند كے قريبى مردوں كے ليے بيوى كے پاس جانے ميں تساہل برتنے كے متعلق بچنے كا كہا گيا ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم عورتوں كے پاس جانے سے اجتناب كرو "

تو ايك انصارى شخص نے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ذرا خاوند كے قريبى مرد ( ديور ) كے متعلق تو بتائيں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ديور تو موت ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5232 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2172 ).

الحمو: خاوند كے بھائى ( يعنى ديور ) اور دوسرے قريبى رشتہ دار مرد مثلا چچا كے بيٹے وغيرہ كو كہا جاتا ہے.

اس مشكل كو ہمارے تسليم اور اقرار كے باوجود ابتدائى امر ميں، جب كہ بہت سارے لوگوں كى جبلت يہ ہے كہ وہ مخالفت سےمحبت كرتے ہيں، اور حدود و آداب كا خيال ركھنے سے انہيں نفرت ہے اور وہ اس سے بھاگتے ہيں، ہمارے اس اقرار كے ساتھ ہم آپ كو يہ خوشخبرى ديتے ہيں كہ يہ معاملہ وقت كے ساتھ ساتھ مالوف ہو كر ايك عادت بن جائيگا، ليكن اس كے ليے ابتدائى طور پر صبر و تحمل اور جدوجھد كى ضرورت ہے، اور آپ كےاس پر صبر كرنے ميں معاون چيز يہ ہے كہ آپ اور آپكا خاوند جان لے كہ اجروثواب مشقت كے حساب سےملتا ہے.

دوم:

آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ كا اپنا خاص فليٹ بھى ہے، يہ اس مشكل سے نكلنے كے ليے بہت ہى اچھا اور آرام دہ حل ہے.

آپ كے خاوند كو دو ميں سے ايك پرعمل كرنا ہو گا:

اول:

يا تو وہ اس فليٹ ميں رہنے پر راضى ہو جائے، اور آپ دن كا اكثر حصہ اس فليٹ ميں گزار ديں، جيسا كہ بيويوں كے ليے طبعى حال ہے، جب خاندان كے گھر كا دروازہ كھلا رہتا ہے، اور آپ كے غير محرم اور اجنبى مرد وقتا فوقتا گھر ميں آتے رہتے ہيں، اور آپ كے ساتھ غير محرم مرد بھى رہتے ہيں، يہ ايسا معاملہ ہے جس كى بنا پر يہ مشكل پيدا ہوئى ہے جس كا آپ نے اپنے سوال ميں ذكر كيا ہے، يا پھر پردہ كرنےاور اختلاط سے بچنے ميں تساہل سے كام ليا گيا، اور اس كے نتيجہ ميں جو گناہ اور معصيت اور فتنہ سامنے آتا ہے.

دوم:

اگر حالات اسے اس وقت كسى سبب يا كسى اور وجہ سے عليحدہ ہونے كى اجازت نہ ديں تو آپ كے خاوند اور اس كے گھر والوں پر واجب ہے كہ وہ آپ كے پردہ اور آپ كے دين كے سلسلہ ميں آپ كى معاونت كريں جيسا كہ ہم پيچھے اشارہ كر چكے ہيں، اور يہ معاملہ ناممكن نہيں، بلكہ نہ ہى مشكل ہے، بہت سارے لوگوں نے اس كى محافظت كى تو ان كى زندگى بہتر اور اچھى بسر ہونے لگى.

سوم:

علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق عورت كے چہرے كا پردہ اجنبى اور غير محرم مردوں سے واجب ہے، ہم اسے سوال نمبر ( 11774 ) كے جواب ميں بيان كر چكے ہيں، اسى طرح مرد و عورت كے اختلاط كى حرمت كے دلائل بھى ہم سوال نمبر ( 12525 ) كے جواب ميں بيان كر چكے ہيں، آپ ان كا مطالعہ كريں.

اور اجنبى اور غير محرم مردوں كے ضمن ميں خاوند كا بھائى ( يعنى ديور ) اور خاوند كا چچا اور اس كا ماموں شامل ہے، اس ليے بيوى كو ان كے سامنے اپنا چہرہ ننگا كرنے كى كوئى ضرورت نہيں.

اس بنا پر جب ِآپ بالكونى پر نكليں تو آپ كے ليے چہرے اور عام بدن كو چھپانا لازم ہے، جہاں سے سڑك پر موجود لوگ آپ كو ديكھتے ہيں اور اس ميں آپ كے ليے كوئى مشقت نہيں، كيونكہ يہ بار بار يا ہميشہ نہيں كبھى كبھار ہوتا ہے، اسى طرح يہ بھى ممكن ہے كہ آپ بالكونى ميں كوئى جنگلہ وغيرہ لگوا ديں جو لوگوں كے ليے ديكھنے ميں مانع ہو.

اے اللہ كى بندى آپ يہ جان ليں كہ شرعى احكام آسان ہيں، اور ان ميں كوئى تنگى نہيں، جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى تم پر كوئى تنگى نہيں كرنا چاتا، ليكن و تمہيں پاك كرنا چاہتا ہے، اور تم پر اپنى نعمتيں پورى كرے تا كہ تم شكر گزار بندے بن جاؤ المآئدۃ ( 6 ).

يہ آيت مرد و عورت كے ليے عظيم اور نفع مند مصالح كو ثابت كرنے اور معاشرے كو خرابيوں اور فساد و انحراف كے اسباب سے محفوظ ركھنے كى كفيل ہے، ليكن مكلف شخص پر مشكل اس وقت داخل ہوتى ہے جب وہ اس كى تطيبق ميں غلطى كرتا ہے، يا پھر جو نعمتيں اللہ تعالى نے اسے دى ہيں وہ ان سے كما حقہ استفادہ نہيں كرتا، لہذا ايك بار پھر تاكيدا كہتے اور اس كو دھراتے ہيں كہ آپ اپنے ليے مخصوص فليٹ سے ضرور استفادہ كريں، اور اختلاط اور بھيڑ سے دور زندگى كا تجربہ كريں، ان شاء اللہ آپ اس ميں راحت و سكون اور سعادت محسوس كرينگى.

اللہ تعالى آپ كو اپنے محبوب كام كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android