0 / 0
11,49421/01/2007

كيا عورتوں كے ختنہ كرنے ميں كوئى صحيح حديث وارد ہے ؟

سوال: 82859

كيا كسى صحيح حديث ميں دليل ملتى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى بيويوں يا اپنى بيٹيوں كو كسى بھى شكل يا طريقہ پر ختنہ كرانے كى اجازت دى تھى ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

ہمارے علم ميں تو كوئى ايسى حديث نہيں جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى بيويوں يا اپنى بيٹيوں كو ختنہ كا حكم ديا ہو ليكن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں يہ ثابت ہے كہ آپ نے مدينہ ميں ايك ختنہ كرنے والى عورت كى راہنمائى كرتے ہوئے ختنہ كرنے كا بہتر طريقہ بتايا تھا.

سنن ابو داود اور طبرانى الاوسط، اور بيھقى ميں ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ:

” مدينہ ميں ايك عورت ختنہ كيا كرتى تھى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا كہ:

” تم بالكل ہى كاٹ كر ختم نہ كردو، كيونكہ يہ عورت كے ليے زيادہ فائدہ اور نفع مند ہے، اور خاوند كے ليے محبوب ترين اور پسنديدہ ہے ”

سنن ابوداود حديث نمبر ( 5271 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

” اشمى و لاتنھكى ” الاشمام ختنہ كا قليل سا حصہ كاٹنے كو كہتے ہيں، اور النھك كاٹنے ميں مبالغہ كرنے كو كہتے ہيں.

يعنى تھوڑا سا كاٹو، اور كاٹنے ميں مبالغہ مت كرو.

اس كے دلائل ميں وہ عمومى دلائل بھى شامل ہيں جن ميں ختنہ كرنے كا ذكر آيا ہے جيسا كہ بخارى اور مسلم كى درج ذيل حديث ميں ہے:

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” پانچ اشياء فطرتى ہيں: ختنہ كرانا، زيرناف بال صاف كرنا، مونچھيں كاٹنا، ناخن تراشنا، اور بغلوں كے بال اكھيڑنا “

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5891 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 257 ).

يہ مردوں اور عورتوں كے ليے عام ہے، صرف وہ اشياء جو مردوں كے ليے خاص مثلا مونچھيں كاٹنا.

اور صحيح مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جب وہ چار شاخوں كے درميان بيٹھے اور ختنہ ختنہ سے چھو جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 349 ).

اور ترمذى وغيرہ كى روايت ميں ہے كہ:

” جب دونوں ختنے مل جائيں .. “

سنن ترمذى حديث نمبر ( 109 ).

اس حديث پر امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں باب باندھا ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” اس تثنيہ سے مراد مرد اور عورت كا ختنہ ہے.

اور عورت كا ختنہ اس طرح ہو گا كہ پيشاب خارج ہونے والى جگہ پر مرغ كى كلغى جيسى چمڑى كا كچھ حصہ كاٹا جائے، سنت يہ ہے كہ وہ سارى كلغى نہ كاٹى جائے بلكہ اس كا كچھ حصہ كاٹا جائے ”

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 28 ).

شافعى حضرات كے ہاں اور حنبلى وغيرہ حضرات كے مشہور مسلك ميں عورتوں كا ختنہ كرنا واجب ہے.

اور اكثر اہل علم يہ كہتے ہيں كہ عورتوں كے ليے ختنہ كرنا واجب نہيں، بلكہ يہ سنت اور ان كے ليے تكريم كا باعث ہے.

ليكن يہاں ہم ايك تنبيہ كرنا چاہتے ہيں كہ اس كے طبى طور پر بھى فوائد پائے جاتے ہيں، چاہے ختنہ كرنے كے واجب ہونے ميں علماء كا اختلاف ہے. ان فوائد كا سوال نمبر (45528 ) كے جواب ميں بيان گزر چكا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android