ميں مسجد ميں آؤں اور امام ركوع كى حالت ميں ہو تو كيا امام كے ساتھ ركوع كرنے سے ركعت شمار ہو گى، حالانكہ ميں نے سورۃ فاتحہ نہيں پڑھى ؟
اور اگر ميں ركوع سے قبل امام كے ساتھ ملوں اور كچھ دير بعد امام ركوع ميں چلا جائے ليكن ميں سورۃ فاتحہ نہ پڑھ سكوں تو مجھے كيا كرنا ہو گا، كيا ميں سورۃ فاتحہ ادھوڑى چھوڑ كر امام كے ساتھ ركوع كروں يا كہ سورۃ فاتحہ مكمل كر كے ركوع كروں ؟
دو مقام پر مقتدى سے سورۃ فاتحہ ساقط ہو جاتى ہے
سوال: 74999
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سوال نمبر (10995 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ ہر نمازى كے حق ميں چاہے امام ہو يا مقتدى يا منفرد جھرى نماز ہو يا سرى سورۃ فاتحہ كى قرآت ركن ہے.
اس كى دليل صحيح بخارى كى درج ذيل حديث ہے:
عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جو سورۃ فاتحہ نہيں پڑھتا اس كى نماز ہى نہيں ہوتى ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 756 ).
ديكھيں: المجموع ( 3 / 283 – 285 ).
مقتدى كے ليے سورۃ فاتحہ كى قرآت دو مقام پر ساقط ہو جاتى ہے:
اول: ركوع پانے كى حالت ميں:
يہ مسئلہ اختلافى ہے:
امام كو ركوع كى حالت ميں پانے كى صورت ميں مقتدى امام كے ساتھ ركوع كرے، تو اس كى يہ ركعت شمار ہو گى، چاہے اس نے سورۃ فاتحہ نہيں پڑھى.
اس كى دليل ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى درج ذيل حديث ہے:
ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف آئے تو وہ ركوع كى حالت ميں تھے، چنانچہ ابو بكرہ صف ميں داخل ہونے سے قبل ہى ركوع ميں چلے گئے، اس كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ذكر كيا گيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” اللہ تعالى تيرى حرص اور زيادہ كرے، آئندہ ايسا نہ كرنا ”
صحيح بخارى حديث نمبر ( 783 ).
وجہ دلالت:
اگر ركوع ميں ملنے سے ركعت شمار نہ ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے يہ ركعت قضاء كرنے كا كہتے جس ميں قرآت نہيں كى گئى تھى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہ منقول نہيں، جو اس بات كى دليل ہے كہ جو امام كے ساتھ ركوع ميں مل گيا اس كى ركعت ہو گئى.
ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ ( 230 ).
دوسرى جگہ جہاں سورۃ فاتحہ كى قرآت ساقط ہو جاتى ہے:
اگر مقتدى امام كے ركوع ميں جانے سے كچھ دير قبل نماز ميں ملے اور سورۃ فاتحہ كى قرآت مكمل نہ كر سكے، تو وہ امام كے ساتھ ركوع ميں چلا جائے اور سورۃ فاتحہ مكمل نہ كرے تو اس كى يہ ركعت شمار ہو گى.
شيرازى رحمہ اللہ ” المھذب ” ميں رقمطراز ہيں:
اگر مقتدى قيام ميں آ كر ملے اور اسے خدشہ ہو كہ اس كى قرآت رہ جائيگى تو وہ دعائے استفتاح نہ پڑھے، بلكہ سورۃ فاتحہ پڑھنے ميں مشغول ہو جائے، كيونكہ سورۃ فاتحہ فرض ہے اس ليے فرض چھوڑ كر نفل ميں مشغول نہيں ہوا جا سكتا.
اور اگر اس نے ابھى سورۃ فاتحہ كا كچھ حصہ پڑھا اور امام ركوع ميں چلا جائے تو اس ميں دو قول ہيں:
پہلا:
قرآت چھوڑ كر ركوع ميں چلا جائے، كيونكہ امام كى پيروى اور متابعت كى تاكيد زيادہ ہے؛ اسى ليے اگر وہ امام كو ركوع كى حالت ميں پائے تو سورۃ فاتحہ كى فرض كردہ قرآت ساقط ہو جائيگى.
دوسرا:
اس كے ليے سورۃ فاتحہ پڑھنى لازم ہے؛ كيونكہ جب اس نے كچھ قرآت كر لى ہے تو اسے مكمل كرنا لازم ہے ” انتہى
ديكھيں: المجموع ( 4 / 109 ).
( ليكن يہ ياد رہے كہ سورۃ فاتحہ كے بغير نماز نہيں ہوتى اور پھر يہ ركن بھى ہے اس ليے ضرور پڑھنا ہو گى )
شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر ميں ركوع سے كچھ دير قبل نماز ميں ملوں تو كيا سورۃ فاتحہ سے شروع كروں، يا كہ دعاء استفتاح ( سبحانك اللہم و بحمدك الخ ) پڑوں ؟
اور اگر سورۃ فاتحہ مكمل ہونے سے قبل ہى امام ركوع ميں چلا جائے تو ميں كيا كروں ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
” دعائے استفتاح ( سبحانك اللہم و بحمدك الخ يا اللھم باعد بينى ) پڑھنى سنت ہے، اور صحيح قول كے مطابق مقتدى كے ليے سورۃ فاتحہ پڑھنا فرض ہے، جب آپ كو يہ خدشہ ہو كہ آپ كى سورۃ فاتحہ رہ جائيگى تو آپ اس سے ابتدا كريں، اور جب امام ركوع كرے تو مكمل ہونے سے قبل اس كے ساتھ ركوع كر ليں، تو اس صورت ميں باقى ساقط ہو جائيگى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” امام اتباع اور پيروى كے ليے بنايا گيا ہے، لہذا تم اس پر اختلاف نہ كرو، جب وہ تكبير كہے تو تم بھى تكبير كہو، اور جب وہ ركوع كے تم بھى ركوع كرو ”
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 11 / 243 – 244 ).
مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
جب نمازى جماعت ميں ملے اور امام مغرب كى نماز ميں سورۃ فاتحہ كے بعد كوئى دوسرى سورۃ پڑھا رہا ہو تو كيا مقتدى سورۃ فاتحہ كى قرآت كرے گا يا نہيں؛ اور جب امام قيام ميں ہو اور مقتدى نے ابھى صرف رب العالمين ايك آيت ہى پڑھى اور امام ركوع ميں چلا گيا تو كيا مقتدى ركوع كرے يا كہ سورۃ فاتحہ مكمل كرے ؟
كميٹى كا جواب تھا:
” نماز ميں سورۃ فاتحہ كى قرآت كے عمومى دلائل كى بنا پر جھرى يا سرى نمازوں ميں امام اور مقتدى منفرد شخص پر سورۃ فاتحہ كى قرآت كرنى فرض ہے، جو شخص جماعت كے ساتھ آكر تكبير كہے تو اس كے ليے سورۃ فاتحہ كى قرآت فرض ہے، اور اگر سورۃ فاتحہ مكمل كرنے سے قبل امام ركوع ميں چلا گيا تو مقتدى بھى امام كے ساتھ ركوع ميں چلا جائے كيونكہ امام كى متابعت واجب ہے، اور اس كى يہ ركعت ہو جائيگى، جيسا كہ ركوع ميں ملے اور مكمل ركوع كرے تو امام كے ساتھ ركوع ميں ملنے والے كى ركعت ہو جاتى ہے.
علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق سورۃ فاتحہ مكمل نہ كرسكنے كى عدم استطاعت كى بنا پر اس سے سورۃ فاتحہ ساقط ہو جائيگى، اس كى دليل ابو بكرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى صحيح بخارى ميں مشہور حديث ہے. انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 6 / 378 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك مقتدى تكبير تحريمہ اور سورۃ فاتحہ كى قرآت كے بعد امام كے ساتھ ملا اور ابھى سورۃ فاتحہ شروع ہى كى تو امام ركوع ميں چلا گيا، كيا مقتدى ركوع كرے، يا كہ سورۃ فاتحہ مكمل كرے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
” جب مقتدى امام كے ركوع ميں جانے كے وقت نماز ميں شامل ہو اور سورۃ فاتحہ نہ پڑھ سكے، اگر اس كى ايك آيت رہتى ہو تو وہ اسے مكمل كر سكتا ہو تو يہ بہتر ہے، مكمل كر كے امام كے ساتھ ركوع ميں مل جائے، اور اگر زيادہ رہتى ہو كہ اگر وہ سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع كر دے تو امام كے ساتھ ركوع ميں نہيں مل سكے گا، تو وہ امام كے ساتھ ركوع كرے اور سورۃ فاتحہ كو مكمل نہ كرے ” انتہى
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 15 / 106 ).
مزيد ديكھيں: الشرح الممتع ( 3 / 243 – 284 ).
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات