0 / 0

سنگى لگانے كى دوكان كھولنے كا حكم

سوال: 71303

كيا ميرے ليے سنگى لگانے كى دوكان كھولنا اور لوگوں سے اس كى اجرت لينا جائز ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

سنگى لگانے والے كى كمائى كے بارہ ميں فقھاء كرام كا اختلاف ہے كہ آيا وہ مكروہ ہے يا كراہت كے بغير ہى مباح ہے، اور اس ميں ان كے اختلاف كا سبب ان احاديث كى فہم ميں اختلاف ہے جو اس كے سنگى كى كمائى كى كراہت ميں وراد ہيں:

1 – نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” سنگى لگانے والے كى كمائى خبيث ہے ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1568 ).

2 – اور ايك حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

” سب سے برى كمائى فاحشہ عورت كى كمائى، اور كتے كى قيمت اور سنگى لگانے والے كى كمائى ہے ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1568 ).

3 – ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سنگى لگانے والے كى كمائى سے منع كيا ہے ”

مسند احمد حديث نمبر ( 7635 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 4673 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2165 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن نسائى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اس كى اجازت كے سلسلہ ميں جو احاديث وارد ہيں:

1 – انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

” ابو طيبہ نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سنگى لگائى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ايك صاع كھجور دينے كا حكم ديا ”

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2102 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1577 ).

2 – امام بخارى رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ:

” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سنگى لگوائى اور سنگى لگانے والے كو ديا، اور اگر حرام ہوتا تو اسے نہ ديتے “

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2103 ) يہ الفاظ بخارى كے ہيں.

اور بخارى شريف كى ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں كہ:

” اور سنگى لگانے والے كو اس كى اجرت دى، اور اگر انہيں كراہت كا علم ہوتا تو نہ ديتے ”

صحيح بخاى حديث نمبر ( 2278 ).

اور مسلم شريف كى روايت كے الفاظ ہيں:

” اور اگر يہ حرام ہوتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے نہ ديتے ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1202 ).

جمہور علماء كرام نے ان احاديث كو جمع كرتے ہوئے نہى والى احاديث كو كراہت پر محمول كيا ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” اور سنگى لگانے والے سے اجرت پر سنگى لگوانا جائز ہے، اور اس كى اجرت مباح ہے، ابو الخطاب كا اختيار يہى ہے، اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا قول بھى يہى ہے، اور امام مالك، امام شافعى، اور ا صحاب الرائے نے بھى يہى كہا ہے.

اور قاضى ابو يعلى حنبلى كہتے ہيں:

سنگى لگانے والى كى مزدورى مباح نہيں، اور انہوں نے بيان كيا ہے كہ امام احمد رحمہ اللہ نے اسے كئى ايك مقامات پر بيان كيا ہے اور كہا ہے:

بغير كسى سودے اور معاہدے اور شرط كے ديا جائے تو اس كے ليے لينا جائز ہے، اور وہ اسے اپنے جانوروں كے چارہ، اور اپنے غلاموں كے نان و نفقہ ميں خرچ كر دے، اس كے ليے خود كھانا جائز نہيں.

اور سنگى لگانے والے كى كمائى كو مكرہ كہنے والوں ميں عثمان، ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم، اور حسن، اور نخعى شامل ہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” سنگى لگانے والے كى كمائى خبيث ہے ”

اسے مسلم نے روايت كيا اور سنگى لگانے والے كى كمائى كے بارہ ميں كہا ہے:

اسے اپنے اونٹ اور غلام كو كھلا دو “

اسے احمد، اور ترمذى نے حديث نمبر ( 1277 ) ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور اس بات كى دليل كہ يہ حرام نہيں بلكہ مباح ہے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہم كى درج ذيل حديث ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سنگى لگوائى اور سنگى لگانے والے كو اس كى مزدورى دى، اور اگر انہيں حرام انہيں كا علم ہوتا تو وہ اسے نہ ديتے ”

متفق عليہ.

اور ايك روايت كے الفاظ يہ ہيں:

” اگر انہيں علم ہوتا كہ يہ خبث ہے تو وہ اسے نہ ديتے ”

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا سنگى لگانے والے كى كمائى كے متعلق يہ فرمانا:

” اسے اپنے غلام كو كھلا دو ”

سنگى لگانے والے كى كمائى كے مباح ہونے كى دليل ہے؛ كيونكہ جو چيز حرام ہو وہ اپنے غلام كو كھلانا جائز نہيں، كيونكہ غلام بھى آدمى ہيں جو اشياء اللہ تعالى نے آزاد افراد پر حرام كى ہيں، وہ غلاموں پر بھى حرام ہيں، اور اسے خبيث كہنے سے يہ لازم نہيں آتا كہ وہ حرام ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لہسن اور پياز كو بھى خبيث كا نام ديا ہے، حالانكہ يہ مباح ہيں.

بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے آزاد شخص كے ليے اسے مكروہ اس ليے گردانا كہ يہ ہنر اور كام بہت ہى چھوٹا ہے، تا كہ آزاد شخص كو اس سے محفوظ ركھا جائے، اور اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديا كہ وہ اپنے غلام كو كھلا دے، جو اس كے مباح ہونے كى دليل ہے، تو اسے كھانے كى نہى كراہت پر محمول كرنا متعين ہوئى، ليكن حرام نہيں ” انتہى.

ماخوذ از: المغنى ابن قدامۃ ( 6 / 133 ) اختصار اور كمى وبيشى كے ساتھ.

اس بنا پر آپ كے ليے يہ دوكان كھولنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس سلسلہ ميں لوگوں سے لى گئى اجرت حرام نہيں ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android