0 / 0
33,41903/06/2008

اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

سوال: 7103

کیا اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

صحیح یہی  ہے کہ اونٹ کا گوشت چاہے وہ چھوٹے یا بڑے اونٹ کا ہو یا   اونٹنی کا گوشت ہو ، کچا ہو یا پکا ہوا  ہو اسے کھانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس کے متعدد دلائل ہیں:

1-  جابر رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث :

وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا:" کیا ہم اونٹ کا گوشت کھانے پر وضو کریں ؟ تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: (جی ہاں)۔  سائل نے کہا: "کیا ہم بکری کا گوشت کھانے پر وضو کریں ؟" تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو کر لو" صحیح مسلم ( 360 )

2-  براء رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث: وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ کے گوشت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اس سے وضو کرو) پھر بکری کے گوشت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وضو نہ کیا جائے)سنن ابو داود :( 184 ) سنن ترمذی : (81 ) امام احمد اور اسحاق بن راہویہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

جو علمائے کرام  اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنے کو واجب نہیں کہتے انہوں نے اس کے کئی ایک جوابات پیش کیے ہیں:

أ‌-  یہ حکم منسوخ ہے، اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: "رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخر میں آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو نہیں کرتے تھے" سنن ابو داود :( 192 ) سنن نسائی :( 185 )

لیکن حقیقت میں یہ جواب صحیح مسلم کی سابقہ خاص نص کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔

پھر یہ بھی ہے کہ اس میں منسوخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں؛ کیونکہ انہوں نے تو یہ دریافت کیا کہ آیا ہم بکری کا گوشت کھانے پر وضو کریں تو آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا (اگر چاہو تو کر لو)۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ احادیث جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے بعد کے زمانے کی ہیں۔

حالانکہ نسخ کیلیے یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسی دلیل ہو جو یہ ثابت کرے کہ ناسخ بعد میں ہو اور ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے تاریخ کا تعین ہو سکے۔

نیز نسخ والی حدیث عام ہے، اور یہ خاص جو کہ حدیث کے عموم کو خاص کرتی ہے۔

اس پر مستزاد یہ بھی کہ ان کا بکری کے گوشت کے متعلق سوال کرنا اس بات کو بیان کرتا ہے کہ علت آگ پر پکنا نہیں؛ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو بکری اور اونٹ کے گوشت کیلیے یکساں حکم ہوتا۔

ب‌-  انہوں نے اس حدیث سے بھی استدلال کیا ہے:
( وضو خارج ہونے والی چیز سے ہوتا ہے نہ کہ داخل ہونے والی چیز سے )

اس کا جواب یہ ہے کہ:

اس حدیث کو امام بیہقی ( 1 / 116 ) نے روایت کر کے ضعیف قرار دیا ہے، اور دار قطنی صفحہ (55 ) میں بھی  تین علتوں کی بنا پر یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس کی مزید تحقیق آپ سلسلہ ضعیفہ میں حدیث نمبر ( 959 )  کے تحت دیکھ سکتے ہیں۔

اور بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو یہ عام ہے اور وضو واجب کرنے والی حدیث خاص۔

ت‌-  اور بعض اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ([اونٹ کا]گوشت کھانے پر وضو کرو)اس میں وضو سے مراد یہ ہے کہ ہاتھ اور منہ دھوئے جائیں؛ کیونکہ اونٹ کے گوشت میں ناپسندیدہ قسم کی بو اور بہت زیادہ چکناہٹ پائی جاتی ہے، لیکن بکری کے گوشت میں  بو اور چکناہٹ نہیں ہوتی!

اس کا جواب یہ ہے کہ:

یہ بعید ہے، کیونکہ اس سے ظاہر یہی ہے کہ شرعی وضو کیا جائے نہ کہ لغوی، اور شرعی الفاظ کو شرعی معانی پر ہی محمول کرنا واجب ہوتا ہے۔

ث‌-  بعض نے ایک ایسے قصہ سے استدلال کیا ہے جس کی کوئی اصل ہی نہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: ایک روز نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو کسی شخص کی ہوا خارج ہوئی تو اس شخص نے لوگوں کے درمیان سے نکلنے میں شرم کی اور اس نے اونٹ کا گوشت کھایا تھا، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا پردہ رکھتے ہوئے فرمایا! : جس نے اونٹ کا گوشت کھایا وہ وضو کرے، تو اونٹ کا گوشت کھانے والے لوگوں نے اٹھ کر وضو کیا ! "

اس کا جواب یہ ہے کہ:
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
میرے علم کے مطابق کتب حدیث میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ہے، اور نہ ہی کسی فقہ اور تفسیر کی کتاب میں موجود ہے۔
دیکھیں: سلسلہ ضعیفہ( 3 / 268 )

اس مسئلے میں راجح یہ ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کرنا منسوخ ہے۔

اور اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کرنا واجب ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راھویہ، یحیی بن یحیی، ابو بکر ابن منذر اور ابن خزیمہ رحمہم اللہ کا موقف یہ ہے کہ اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اور حافظ ابوبکر بیہقی نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے، نیز یہی موقف تمام محدثین سے بلا استثنا بیان کیا جاتا ہے، اور صحابہ کرام کی ایک جماعت سے بھی منقول ہے۔

ان کی دلیل امام مسلم کی روایت کردہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ: اس کے متعلق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جابر اور براء رضی اللہ عنہما کی دو حدیثیں صحیح ثابت ہیں، جو کہ اس مذہب میں سب سے قوی دلیل ہے، اگرچہ جمہور کا موقف اس کے خلاف ہے۔

جمہور علمائے کرام نے اس حدیث کا جواب جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے دیا  کہ : "نبی صلی اللہ علیہ وسلم  آخر میں آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضو نہیں کرتے تھے"، لیکن یہ حدیث عام ہے اور اونٹ کے گوشت سے وضو کرنے والی حدیث خاص ہے، اور خاص عام پر مقدم  ہوتی ہے۔
دیکھیں: شرح مسلم  از نووی ( 4 / 49 )

اور معاصر علمائے  کرام میں سے شیخ ابن باز ،شیخ ابن عثیمین اور البانی رحمہم اللہ  کا بھی یہی موقف ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ

الشیخ محمد صالح المنجد

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android