0 / 0

كيا نو ركعات وتر دو تشھد اور ايك سلام كے ساتھ ادا كرنے جائز ہيں؟

سوال: 66652

مسجد ميں جماعت كے ساتھ اكٹھى نو ركعت جس كى آٹھويں ركعت ميں تشھد پہلى اور نويں ميں دوسرى تشھد كے بعد سلام پھير كر ادا كرنے كا حكم كيا ہے، كيونكہ بعض اسے بدعت قرار ديتے ہيں ؟

گزارش كے ہے حكم بادليل اور متقدم اور متاخرين علماء كرام كے اقوال كے ساتھ ذكر كريں.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

نماز تراويح ميں افضل تو يہ ہے كہ گيارہ ركعت ادا كى جائيں، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم رمضان المبارك اور باقى دوسرے ايام ميں ادا كيا كرتے تھے، اور يہ دو دو ركعت كے كے ادا كى جائيں، اور پھر تين ركعت ادا كر كے اسے وتر بنا ليا جائے.

ليكن اگر نماز ان ركعت سے زيادہ يا كم ادا كرے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، ليكن افضل اور سنت گيارہ ركعت ہيں، جيسا كہ سوال نمبر ( 9036 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے.

اور جس صورت كے متعلق سوال ميں دريافت كيا گيا ہے وہ وتر ادا كرنے كا ايك طريقہ ہے. جب عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وتر كے متعلق دريافت كيا گياتو انہو كا بيان تھا:

” نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نو ركعت اكٹھى ادا كرتے اور صرف آٹھويں ركعت ميں بيٹھتے اور اللہ كا ذكر اور اس كى حمد بيان كرتے اور اللہ سے دعا كرتے اور پھر سلام پھيرے بغير ہى اٹھ كر نويں ركعت ادا كرتے اور پھر بيٹھ كر اللہ كا ذكر اور اس كى حمد بيان كرتےاور اللہ تعالى سے دعا كر كے سلام پھيرتے جو كہ ہميں سنائى ديتى”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 746 ).

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وتر ادا كرنے كى اقسام بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:

” پانچويں قسم: نو ركعات: ان ميں سے آٹھويں ركعت كے علاوہ نہيں بيٹھتے تھے، اور آٹھويں ميں بيٹھ كر اللہ كا ذكر اور اس كى تعريف اور اللہ تعالى سے دعا كرنے كے بعد سلام پھيرے بغير ہى اٹھ كھڑے ہوتے اور نويں ركعت ادا كر كے تشھد بيٹھ كر سلام پھيرتے اور اس سلام كے بعد بيٹھ كر دو ركعت ادا كرتے” انتھى

ديكھيں: زاد المعاد لابن قيم: ( 1 / 317 ).

اور بعض لوگوں كا خيال ہے كہ يہ احاديث صحيحين كى مندرجہ ذيل حديث كے معارض ہيں جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” رات كى نماز دو دو ( ركعت ) ہے “

حالانكہ ايسا نہيں؛ كيونكہ يہ حديث تو قيام اليل كے متعلق ہے، اور جو صورت ہم نے ذكر كى اور سوال ميں بھى ہے وہ تو نماز وتر كى ايك صورت ہے.

ابن قيم رحمہ اللہ تعالى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وتر كى ادائيگى كى انواع اور صورتوں كو ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:

” اور صحاح كى سب احاديث صريح ہيں ان كى معارض نہيں، اسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس قول كے ساتھ رد كيا جاتا ہے:

” رات كى نماز دو دو ہے” يہ حديث صحيح ہے، ليكن جس نے يہ فرمايا ہے اسى نے ہى نو، سات، پانچ واتر بھى ادا كيے ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سب سنتيں حق ہيں جو ايك دوسرے كى تصديق كرتى ہيں، لہذا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رات كى نماز كے متعلق دريافت كرنے والے سائل كو بتايا كہ رات كى نماز ” دو دو ہے ” اور سائل نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وتر كے متعلق سوال نہيں كيا تھا.

اور رہا رمسئلہ سات، پانچ، نو، اور ايك كا تو يہ وتر كى نماز ہے، اور پہلى ادا كردہ ميں سے ايك عليحدہ ركعت يا پھر اكٹھى نو يا پانچ يا سات ركعت كا نام وتر ہے، جيسا كہ اكٹھى تين ركعت كا نام مغرب كى نماز ہے، لہذا اگر گيارہ ركعات كى طرح پانچ، يا سات ركعت دو سلام كے ساتھ منفصل اور عليحدہ ادا كى جائيں تو اكيلى عليحدہ ركعت كا نام وتر ہو گا، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” رات كى نماز دو دو ہے، لہذا جب تم ميں كسى ايك كو صبح ہونے كا خدشہ ہو تو وہ ايك ركعت وتر ادا كرے جو پہلى نماز كو وتر بنا دے گى”

تو اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا قول اور فعل متفق ہو گئے اور ايك دوسرے كى تصديق كى دى” انتہى

ديكھيں: اعلام الموقعين ( 2 / 424 – 425 ).

اور سوال نمبر (52875 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے كہ نماز وتر رات كى نماز ميں شامل ہوتى ہے، ليكن يہ كيفيت ميں مختلف ہے.

تو اس بنا پر نما تراويح نو ركعت اكٹھى اور ايك سلام كے ساتھ ادا نہيں كى جائيں گى، بلكہ جو اس كيفيت ميں ادا كى جائيگى وہ نماز وتر ہو گى.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android