0 / 0
6,45230/03/2007

اپنے شريك تجارت سے ماہانہ مقررہ نفع لينے پر متفق ہونا

سوال: 65689

ميں تجارت كرتا ہوں اور اپنے دوست سے اس بنياد پر كچھ رقم لى ہے كہ وہ ميرے ساتھ تجارت ميں شريك ہوگا، اور ميں ہر ماہ اسے مقررہ نفع دونگا يعنى اس ميں كمى و بيشى نہيں ہوگى، كيا يہ سود تو نہيں ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

شراكت كى يہ قسم علماء كے ہاں مضاربت كے نام سے پہچانى جاتى ہے اور وہ يہ ہے كہ: ايك شخص دوسرے كو تجارت كے ليے مال دے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع حسب اتفاق تقسيم كيا جائيگا، اور تجارت كرنے والے كو مضارب كا نام ديا جاتا ہے "

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 8 / 116 ).

اور شراكت كى اس قسم كے جواز كے ليے شرط يہ ہے كہ نفع معلوم تناسب كے ساتھ تقسيم كيا جائے، مثلا نصف، يا ايك تہائى وغيرہ.

اور يہ جائز نہيں كہ يہ نسبت راس المال ميں سے معلوم ہو، مثلا اگر كوئى شخص آپ سے كچھ رقم تجارت كرنے كے ليے ليتا ہے اور اس پر متفق ہوا كہ وہ مثلا آپ كو ہر ماہ راس المال ميں سے دس فيصد دےگا كہ يہ نفع ہے، تو يہ جائز نہيں.

اور اسى طرح يہ بھى جائز نہيں كہ منافع كى مقدار رقم ميں معلوم ہو مثلا ہر برس يا ہر ماہ ايك ہزار، بلكہ واجب اور ضرورى تو يہ ہے كہ منافع ميں سے نسبت اس حساب كے مطابق دى جائے جس پر ان كا اتفاق ہوا ہو.

اور اگر وہ رقم كے مالك كے ليے معلوم مقدار ميں روپے مقرر كرنے كى شرط ركھتا ہے، يا راس المال ميں سے معلوم تناسب كى شرط تو شراكت كا يہ معاہدہ باطل اور حرام ہوگا.

اس سب پر علماء كرام متفق ہيں، اور ان ميں كسى بھى قسم كا كوئى اختلاف نہيں، الحمد للہ.

ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اہل علم اس پر جمع ہيں كہ كام كرنے والے كے ليے جائز ہے كہ وہ مال كے مالك كو نفع ميں سے تيسرا حصہ، يا نفع كا نصف يا جس پر ان دونوں كا اتفاق ہو دينے كى شرط ركھے، اس كے بعد كے وہ اجزاء ميں سے ايك جزء ہو " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 138 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالى " المغنى " ميں رقمطراز ہيں:

" جب بھى شراكت داروں ميں سے كسى ايك نے معلوم رقم مقرر كى يا اپنے حصہ كے ساتھ رقم بنائى، مثلا وہ اپنے ليے شرط ركھے كہ ايك جزء اور دس درہم تو يہ شراكت باطل ہو جائيگى.

ابن منذر كا كہنا ہے: اہل علم ميں سے جس سے بھى ہم نے علم حاصل كيا ہے ان سب كا اس پر اتفاق ہے كہ جب مضاربت كے شراكت داروں ميں سے كوئى ايك يا دونوں اپنے ليے معلوم دراہم كى شرط ركھيں تو يہ مضاربت باطل ہوگى، اور جس سے ہم نے علم حاصل كيا ہے وہ امام مالك، امام اوزاعى، امام شافعى، اور ابو ثور اور اصحاب الرائى ہيں ….

يہ دو معنوں كى بنا پر صحيح نہيں: پہلا يہ كہ:

جب وہ معلوم درہم مقرر كريگا تو اس كا احتمال ہے كہ دوسرے شريك كو نفع حاصل نہ ہو، اور سارا نفع وہ خود ہى حاصل كر لے، اور يہ بھى احتمال ہے كہ اسے نفع ہى نہ ہو اور وہ راس المال سے مقرر كردہ درہم لے لے، اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ بہت زيادہ نفع ہو تو جس نے مقررہ درہم كى شرط ركھى ہے اسے نقصان اٹھانا پڑے.

اور دوسرا معنى يہ ہے كہ:

عامل يعنى كام كرنے والا كا حصہ مقدار ميں معلوم ہونا مشكل ہے تو پھر اجزاء ميں معلوم ہونا ضرورى ہے، اور جب اجزاء ہى معلوم نہ ہوں تو پھر شراكت فاسد ہو جائيگى " انتہى.

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 7 / 146 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر مضاربت ( شراكت كى ايك قسم ) ميں مال والے نے معين دراہم كى شرط ركھى تو بالاتفاق يہ جائز نہيں ہے؛ كيونكہ معاملہ عدل و انصاف پر مبنى ہے، اور يہ معاملہ مشاركت كى جنس سے ہے، اور مشاركت اس وقت ہوتى ہے جب ہر شريك كا حصہ معلوم ہو مثلا تيسرا حصہ، يا نصف، تو اگر كسى ايك كے ليے كچھ مقرر كر ديا جائے تو يہ عدل و انصاف نہيں ہے؛ بلكہ يہ ظلم و ستم ہوگا " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 28 / 83 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص نے دوسرے كو تجارت كرنے كے ليے كچھ رقم دى، اور ان كا اتفاق ہوا كہ وہ راس المال ميں سے تين فيصد كے حساب سے ہر ماہ نفع ديا كريگا كيا يہ جائز ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" آپ كا تاجر كو تجارت ميں لگانے كے ليے مال دينا، اور اس كا آپ كو اس رقم ميں سے تين فيصد كے حساب سے نفع دينا جائز نہيں، كيونكہ يہ مضمون نفع ميں سے ہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 14 / 318 ).

اور كميٹى سے يہ سوال بھى كيا گيا:

ايك كمپنى لوگوں سے تجارت كرنے كے ليے رقم ليتى ہے اور انہيں راس المال ميں سے تيس فيصد ( 30% ) كے حساب سے سالانہ ديتى ہے اور يہ دعوى كرتى ہے كہ اسے سو فيصد نفع حاصل ہوتا ہے، كيا يہ صحيح ہے ؟

كميٹى كا جواب تھا:

" اگر تو مذكورہ كمپنى اپنے شراكت دار كو محدود اور مضمون نفع ديتى ہے، يعنى اس ميں نقصان نہيں ہوتا، تو يہ لين دين جائز نہيں، اس ليے كہ يہ سود ہے، اور مباح اور جائز لين دين يہ ہے كہ ہر شريك كا ايك حصہ معلوم ہو مثلا چوتھا حصہ، يا پھر دسواں حصہ، اور وہ حاصل كردہ كے حساب و كتاب كے مطابق كم اور زيادہ ہوتا رہے " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 14 / 321 ).

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android