0 / 0

بيوى كى بيمارى كى بنا پر مشكلات

سوال: 34589

ميرے بھائى نے ايك عورت سے شادى كى جسے آنكھوں ميں ٹيڑھ پن كى بيمارى ہے، اسے اس كى بيمارى كے بارہ ميں دو ماہ قبل علم ہوا، اسے صرف اتنا علم تھا كہ اس كى نظر كمزور ہے، پھر شادى ہو گئى اور اب ميں متردد ہے كہ آيا اسے ركھے يا كہ چھوڑ دے كيونكہ بچوں كى تربيت پر اثر پڑيگا.

اب وہ مستقل طور پر اپنى ساس كے ساتھ اختلاف ميں رہتا ہے كيونكہ وہ بہت غلط زبان استعمال كرتى ہے، ميرے بھائى كا خيال ہے كہ ساس نے اس پر جادو كر ديا تھا تا كہ وہ اس كى بيٹى سے شادى كر لے، اور اب وہ اپنے اعصاب پر بھى كنٹرول نہيں ركھ سكتا، بلكہ اكثر اوقات بيوى كو مارتا رہتا ہے، اور اسے قبيح اور غلط قسم كے الفاظ كہتا ہے.

برائے مہربانى ہميں يہ بتائيں كہ ان دونوں كى مصلحت كے ليے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

آپ نے جو بيان كيا ہے كہ اس كى آنكھ ميں جو ٹيڑھ پن ہے يہ ان عيوب ميں شامل نہيں ہوتا جسے فقھاء كرام نے خاوند كے ليے فسخ نكاح اختيار كرنے كا سبب قرار ديا ہے.

اور بعض علماء مثلا شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ابن قيم رحمہ اللہ اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ بھى اسے ہى راجح قرار ديتے ہيں كہ:

ہر وہ عيب جو خاوند اور بيوى كے ليے نفرت كا باعث بنتا ہو، اور اس سے نكاح كا مقصد محبت و مودت اور پيار حاصل نہ ہو تو اس سے فسخ كا اختيار حاصل ہو جاتا ہے ”

ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 163 ).

اس بنا پر ہر اس عيب كى بنا پر فسخ كا اختيار حاصل ہو گا جو نكاح كے مقصد محبت و پيار اور مودت اور اولاد كے حصول ميں مانع ہو.

ليكن آپ كے بھائى كو اس عيب كا علم ہو بھى گيا اور اس سے وہ كچھ صادر ہوا ہے جو اس كى رضا پر دلالت كرتا ہے، وہ يہ كہ اس نے اپنى بيوى سے معاشرت مكمل كى اور نكاح فسخ كرنے ميں جلدى نہيں كى، يہ چيز فقھاء كرام كے ہاں رضامندى كو واجب كرتى ہے، اور اسے فسخ نكاح كا حق نہيں ہے.

ليكن آپ كو علم ہے كہ طلاق خاوند كا حق ہے، اس ليے جب خاوند ديكھے كہ وہ اپنى بيوى كے ساتھ صحيح زندگى بسر نہيں كر سكتا، اور وہ اس كے ساتھ رہتے ہوئے محبت و الفت اور سكون حاصل نہيں كر سكتا جو كہ نكاح كى اساس و بنياد ہے تو پھر اسے طلاق دينے كا حق حاصل ہے.

اس طرح كى حالت ميں يہى نصيحت كى جاتى ہے كہ اس بيوى پر صبر كيا جائے، اور مشكلات كو حل كرنے كى كوشش كى جائے، اگر بيوى كى والدہ اس مشكل كا بنيادى سبب ہے تو بہتر يہى ہے كہ ساس سے دور رہا جائے، اور رہائش دوسرى اختيار كر لى جائے.

اگر آپ كا بھائى اسى رہائش ميں رہتا ہے جہاں ساس رہتى ہے يا پھر اس كے قريب كہيں رہتا ہے تو وہ اس سے دور رہائش اختيار كر لے، اور ساس كے ساتھ صرف ٹيلى فون پر رابطہ ركھا جائے اور تھوڑى سى ملاقات ہو.

اور اگر ان مشكلات كا سبب بيوى كا برا اخلاق ہے تو آپ كے بھائى كو اپنے متعلق ديكھنا چاہيے كہ كہيں اس كا سبب وہ خود تو نہيں ؟ اور بيوى كے ساتھ اس كے معاملات اس كا سبب تو نہيں بن رہے ؟

كيونكہ ہو سكتا ہے آپ كے بھائى اپنى بيوى كے ساتھ معاملات كرنے كا انداز اور اسلوب صحيح نہ ہو، اور كثرت سے اسے مارنا اور اسے گالياں دينا ہى اس كے برے اخلاق كا سبب بن رہا ہو.

آپ كے بھائى كو اس سلسلہ ميں تجربہ كار لوگوں سے مشورہ كرنا چاہيے، اور ہر قسم كے وسائل كے ساتھ ان مشكلات كو حل كرنے كى كوشش كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اگر تم انہيں ناپسند كرتے ہو تو ہو سكتا ہے تم كسى چيز كو ناپسند كرو اور اللہ سبحانہ و تعالى اس ميں بہت زيادہ بھلائى پيدا كر دے النساء ( 19 ).

اور اگر مشكلات ميں اور اضافہ ہو جائے، اور وہ ديكھے كہ اس سے نكلنے كى كوئى راہ نہيں، يا پھر ديكھے كہ اس كى جانب سے بيوى كو مانوس كرنے اور اس سے محبت كرنے كى كوئى راہ نہيں ہے اور وہ اس كے ساتھ نہيں رہ سكتا تو پھر اسے طلاق دينے ميں كوئى حرج والى بات نہيں.

ليكن اس حالت ميں بيوى سے دخول كرنے كى بنا پر خاوند بيوى كو پورا مہر ادا كريگا.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android