0 / 0
20,35604/01/2010

ميں ربانى بننا چاہتا ہوں…. دس وصيتيں

سوال: 34306

ميرا ايك چھوٹا سا سوال ہے: وہ يہ كہ ميں جنت ميں جانا پسند كرتا ہوں، ميں چاہتا ہوں كہ نفس كے ساتھ جھاد كروں، ميں روزانہ اپنى والدہ كا ہاتھ چومنا چاہتا ہوں، ميں شيطانى خواہشات سے دور رہنا چاہتا ہوں، ميں چاہتا ہوں كہ اللہ تعالى مجھے روز قيامت ربانى بندے كے لقب سے پكارے ان شاء اللہ، ميں اپنے بھائيوں سےمحبت كرنا چاہتا ہوں، ميں چاہتا ہوں كہ ميرا ايمان بڑھتا ہى رہے، مجھے كيا كرنا چاہيے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

ہمارى اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كو ہميشہ حق پر ثابت قدم ركھے، اور آپ كى مراد اور خواہش پورى فرمائے، اور آپ كو توبہ اور رجوع كرنے والوں سے بنائے جو حق كو پہچانتے ہيں، اور حق كا دفاع كرتے ہيں، اور دين اسلام پر مضبوطى سے عمل پيرا ہوتے ہيں.

آپ نے جو سوالات مشورہ طلب كرتے وقت كيے ہيں وہ سوالات فطرت سليمہ اور صاف ستھرذہنيت پر دلالت كرتے ہيں، اور اس سے علم ہوتا ہے كہ آپ بلندى تك پہنچنے كى بہت بڑى رغبت ركھتے ہيں، اور ہر حقدار كو اس كا حق ادا كرنے كى بھى رغبت ہے، يہ خواہشات بہت عظيم الشان ہيں، جو ايمان كے ساتھ ہى پائى جاسكتى ہيں.

اور جيسا كہ سفيان ثورى رحمہ اللہ تعالى سے ان كا قول مروى ہے:

” ايمان خواہش اور آروزوں كا نام نہيں، اور نہ ہى زيب و زينت اور زيور پہننے كا نام ہے، ليكن ايمان وہ ہے جو دل ميں گھر كرے اور عمل اس كى تصديق كرتا ہو.

ميرے بھائى يہاں سے ہم آپ كے ساتھ ايمان كے معاملہ ميں داخل ہوتے ہيں كہ ربانيت تك پہنچنے ميں اس كى كيا اہميت ہے، اور رضامندى كا حصول اور والدين سے حسن سلوك اور جنت كے حصول كى كاميابى كا سفر كريں گے.

كسى نے كيا خوب كہا ہے:

جو بلند مرتبہ حاصل كرنا چاہتا ہے وہ راتوں كو بيدار ہوتا ہے، اور شاعر نے كيا خوب كہا:

اس كے ليے خوشخبرى ہے رات جس كى آنكھيں بيدار رہتى ہيں، اور اس نے اپنے آقا و مولا كى محبت كے قلق ميں رات بسر كى.

اور وہ اكيلا ہى رات بھر ستاروں كى ركھوالى كرتا رہا، اس اللہ كے شوق سے اور اللہ تعالى كى آنكھيں اس كى ديكھ بھال كرتى رہيں.

اور اسى ليے فضيل رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

” دلوں كے ليے حرام ہے كہ وہ دنيا ميں زھد اخيتار كيے بغير ايمان كى حلاوت اور مٹھاس حاصل كرليں”

اور ان كا يہ بھى قول ہے:

” اگر تم رات كو قيام كرنے، اور دن ميں روزہ ركھنے كى قدرت نہيں ركھتے تو آپ كو علم ہونا چاہيے كہ آپ محروم ہيں”

لھذا پكا اور سچا مومن وہ ہے جو ايك دہكتے ہوئے انگارے جيسا دل ركھتا ہے، اور اسى ليے امام حاكم رحمہ اللہ تعالى نے اپنى مستدرك اور طبرانى نے معجم الطبرانى ميں صحيح سند كے ساتھ روايت بيان كى ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” يقينا تمہارے ايك كے دل ميں ايمان بوسيدہ اور پرانا ہو جاتا ہے جس طرح ايك كپڑا بوسيدہ اور پرانا ہوتا ہے، اللہ تعالى سے سوال كيا كرو كہ وہ تمہارے دلوں ميں ايمان كى تجديد كر دے”

يعنى كپڑے كى طرح دل ميں ايمان بھى بوسيدہ ہو جاتا ہے.

اور بعض اوقات مومن كے دل پر معصيت و نافرمانى كے بادل چھا جاتے ہيں، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہى صورت بيان كرتے ہوئے فرمايا:

” كوئى ايسا دل نہيں جس ميں چاند كے بادلوں كى طرح بادل نہ ہو، جب اس پر بادل چھا جاتا ہے تو اس ميں اندھيرا ہو جاتا ہے، اور جب اس سے بادل چھٹ جاتا ہے تو روشن ہو جاتا ہے”

اسے امام طبرانى رحمہ اللہ تعالى نے طبرانى الاوسط ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح قرار ديا ہے.

اسى طرح مومن كے دل پر بھى بعض اوقات اندھيرے بادل چھا جاتے ہيں تو اس كى روشنى اور نور چھپ جاتا ہے، اور وہ اندھيرے اور وحشت ميں رہ جاتا ہے، اور جب وہ ايمانى قوت و طاقت اور ايمانى بيلنس بڑھانے كى كوشش كرے اور اللہ تعالى سے مدد و تعاون طلب كرے تو يہ بادل چھٹ جاتے اور اس كے دل كا نور واپس آكر اسے روشن كر ديتا ہے.

اسى ليے بعض سلف سے يہ قول مروى ہے كہ:

” بندے كى فقاہت ميں يہ شامل ہے كہ وہ اپنے ايمان كا خيال ركھے، اور اس ميں كمى نہ ہونے دے”

اور بندے كى فقاہت ميں يہ بھى ہے كہ:

” اسے علم ہونا چاہيے كہ شيطانى وسوسے كہاں سے اور كس طرح آتے ہيں”

لھذا ايمان كى طرف پلٹنا ضرورى ہے، جب آپ ايمان اور اس كے تقاضوں كى طرف پلٹيں گے، تو پھر آپ جو چاہتے ہيں وہ بھى حاصل كرسكيں گے، اسى ليے ميں آپ كے سامنے ايك قاعدہ اور اصول وضع كرتا ہوں، جس سے آپ ايمان كے وجود يا عدم وجود كو پركھ سكيں گے.

امام ابن جوزى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اے دروازے سے دھتكار ديے جانے والے، اے احباب كى ملاقات سے محروم كر ديے جانے والے، جب تم بادشاہ كے ہاں اپنى قدروقيمت معلوم كرنا چاہو تو پھر يہ ديكھو كہ وہ تم سے كونسا كام ليتا ہے، اوركس كام ميں لگاتا ہے اور كونسے اعمال ميں مشغول كرتا ہے، بادشاہ كے دروازے كے باہر كتنے ہى لوگ كھڑے ہيں، ليكن اس اندر وہى داخل ہوتا ہے جس كا خيال ركھا جائے، ہر دل قرب كے ليے درست نہيں ہوتا، اور نہ ہى ہر سينے ميں محبت ہوتى ہے، اور نہ ہى ہر باد نسيم سحرى كى باد نسيم كے مشابہ ہوتى ہے” .

اور جب آدمى يہ معلوم كرنا چاہے كہ وہ اللہ تعالى كے كتنا نزديك ہے، اور اللہ تعالى كے اوامر اور نواہى سے اس كا كتنا تعلق ہے، تو اسے اپنى حالت كى طرف ديكھنا چاہيے، اور وہ ديكھے كہ وہ كس كام ميں مشغول ہے، لھذا اگر تو وہ دعوت و تبليغ اور اس كے متعلق امور ميں مشغول ہے، اور مخلوق كو آگ ميں داخل ہونے سے بچا رہا ہے، اور جنت كے حصول اور كاميابى كے ليے اعمال كر رہا ہے، اور كمزور و لاچار اور ضرورتمنت شخص كى مدد كرتا ہے، اور والدين كے ساتھ حسن سلوك كرتا ہے، تو اسے خوش ہو جانا چاہيے اور اسے اللہ مالك الملك جو شہنشاہ ہے كے قرب اور اس كے ہاں اس كے مرتبہ كى خوشخبرى دى جاتى ہے، كيونكہ اللہ تعالى تو خير و بھلائى كى توفيق صرف اسى شخص كو ديتا ہے جس سے اللہ تعالى محبت كرے.

اور اگر وہ دعوت و تبليغ سے بھاگتا ہے، اور دعوت وتبليغ كا كام كرنے والے مبلغين حضرات سے نفرت كرتا اور بغض ركھتا ہے، اور بھلائى اور خير كے كاموں سے دور بھاگتا ہے، دنيا اور اسكے حصول ميں مشغول ہے، اور سوائے قيل وقال كے كوئى كام نہيں، اور كثرت سے سوال كرتا ہے، اس كے ساتھ ساتھ اعمال كم ہيں، اور اپنى خواہشات اور شھوات كے پيچھے بھاگتا پھرتا ہے، تو اسے يہ جان لينا چاہيے كہ وہ اللہ تعالى سے دور ہے، اور جنت كے قريب كرنے والى اشياء سے محروم ہے، جبكہ اللہ عزوجل اپنى كتاب ميں فرماتا ہے:

جس كا ارادہ صرف جلدى والى دنيا ( كا فورى فائدہ ) ہى ہو اسے ہم يہاں جس قدر اور جس كے ليے چاہيں سردست دے ديتے ہيں بالآخر اس كے ليے جہنم مقرر كر ديتے ہيں جہاں وہ برے حالوں دھتكارا ہوا داخل ہو گا، اور جس كا ارادہ آخرت كے حصول كا ہو اور جيسى كوشش اس كے ليے ہونى چاہيے وہ كرتا بھى ہو اور وہ ايمان والا بھى ہو، پيس يہى لوگ ہيں جن كى كوشش كى اللہ تعالى كے ہاں پورى قدر دانى كى جائے گى.

ميرے بھائى…..

اگر آپ ہر قسم كى خير وبھلائى ميں اونچا مقام اور مرتبہ حاصل كرنا چاہتے ہيں، جس ميں يہ بھى ہے كہ آپ ربانى بندہ بنيں، اور اپنے والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنے والے بنيں، اور جنت كو حاصل كرنے والے ہوں، تو پھر آپ كو مندرجہ ذيل كام كرنا ہونگے:

اول:

اپنے نفس كے اندر ايمان بيدار كريں، وہ ايك ايمان ہى ايسى چيز ہے جو ايك مسلمان شخص كى دنيا و آخرت كى گمشدہ اشياء تك پہنچنے كا راز اور راستہ ہے، ايمان ہى ہر خير و بھلائى كى چابى اور كنجى ہے، اور ہر شرو برائى كو بند كرنے اور روكنے والا ہے.

ايمان كا باعث بننے اور پيدا كرنے والے اور نفس ميں جاگزيں كرنے والے وسائل بہت زيادہ اور كئى ايك ہيں، ان ميں سے اطاعت و فرمانبردارى ميں كثرت اور اعمال صالحہ بھى ہيں.

دوم:

آپ اپنے مولا و آقا كى طرف سچائى اور صدق كے ساتھ متوجہ ہوں، جيسا كہ ايك اثر روايت كيا جاتا ہے:

جب ميرا بندہ ميرى طرف اپنے دل ودماغ اور جسم كے ساتھ متوجہ ہوتا ہے، تو ميں اس كى طرف اپنے بندوں كے دلوں كے ساتھ مودت و رحمت ليے متوجہ ہوتا ہوں”

يہ كہ آپ اللہ تعالى كو سب سے قيمتى اور بلند غرض و غايت بنائيں، اور سب سے اعلى ھدف يہ ہونا چاہيے كہ:

اور ميں نے جنوں اور انسانوں كو صرف اور صرف اپنى عبادت كے ليے ہى پيدا كيا ہے.

سوم:

آپ ہميشہ بلند درجات كى جانب ہى جائيں، اور اپنى زندگى كا ھدف اللہ تعالى كى رضامندى و خوشنودى بنائيں، اور جنت كے حصول كے ليے عمل كريں، يا پھر سب سے بہتر كاميابى جنت الفردوس كے حصول كى كوشش كريں، اور جتنى بھى استطاعت ہے اس كے مطابق آپ يہ قيمتى اھداف پورے كرنے كى جدوجھد كريں.

چہارم:

تاريخ اسلامى ميں صحابہ كرام اور تابعين عظام اور سلف صالحين كو نمونہ بنا كر ان كى پيروى كريں.

پنجم:

آپ ہرمنٹ اور ہر لحظہ كو غنيمت جانيں، اور دل كى ہر دھڑكن كو اپنے ايمانى بيلنس كے خزانے ميں ركھيں.

ششم:

نيك اور صالح صحبت اختيار كريں:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

” آدمى اپنے دوست كے دين پر ہے، لھذا تم ميں ہر ايك يہ ديكھے كہ وہ دوستى كس سے كر رہا ہے”

اسے ابو داود اور ترمذى نے حسن سند كے ساتھ روايت كيا ہے.

ہفتم:

اعمال صالحہ ميں سے افضل اعمال كثرت كے ساتھ كريں، جو آپ كے ليے جلدى اور دير والى سعادت كا باعث بنے گا.

ہشتم:

قيام الليل اور سحرى كے وقت دعا كرنا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قدموں ميں اس رغب سے ورم آجايا كرتى تھى كہ وہ اللہ تعالى كا شكر گزار بندہ بن سكيں، حالانكہ اللہ تعالى نے تو ان كےسارے اگلے پچھلے گناہ معاف كر ديے ہيں.

نہم:

قرآنى تلاوت ورد پر ہميشگى، اور غور وفكر اور تدبر تو قرآن كريم كے اسرار ميں ہے.

دہم:

اللہ تعالى كى دعوت كو نشر كرنے كى حرص ركھنا، اور قدر الاستطاعہ دين كے ليے كام كرنا.

اور جب آپ كا ارادہ اس ربانيت تك پہنچنے كا ہے جس كى طرف آپ نگاہيں اٹھائيں ہوئے ہيں، تو پھر آپ ويسے بن كر دكھائيں جس طرح اللہ تعالى اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو بننے كا حكم ديا ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

كہہ ديجئے بلاشبہ ميرى نماز اور ميرى قربانى اور ميرا زندہ رہنا اور ميرى موت اللہ رب العالمين كے ليے ہے.

ربانيت اللہ تعالى كى طرف نسبت ہے، اور يہ نسبت تو صرف اس آيت پر عمل پيرا ہوئے بغير ہو ہى نہيں سكتى، وہ يہ كہ ہم ہر حالت ميں اللہ رب العالمين كے ليے ہى ہوں، اور بن كر دكھائيں.

لھذا ربانيت تو اس كے بغير آ ہى نہيں سكتى، ربانيت تو اسى طرح آسكتى ہے كہ عبادت كے شامل مفہوم كے مطابق اللہ تعالى كى عبادت كى جائے، اور اس طرح كہ زندگى اور موت، بلكہ حركات و سكنات سارى كى سارى اللہ سبحانہ وتعالى كے ليے ہوں.

لھذا ہم كلام كريں اور زبان سے كچھ نكاليں تو وہى جس سے اللہ راضى ہو، اور عمل كريں تو ايسا جو اللہ تعالى كو راضى كردے، اور ان اقوال و اعمال ميں ہمارى نيتيں اللہ سبحانہ وتعالى كى طرف متوجہ ہوں اور اس ميں اخلاص پايا جائے، نہ كہ ہم عبادت كو صرف معين اورمحدود وقت ميں سر اوپر نيچے كرنے ميں محصور كر كے ركھ ديں، يا پھر كچھ مدت كے بعد تھوڑے سے درہم اور روپے نكال ديا كريں، يا ہر سال كچھ محدود ايام كے روزے ركھ ليا كريں، يا ہم اپنى زبانوں كو بعض اذكار اور نہ سمجھ آنے والے كلمات دے كر حركت ديتے رہيں.

اور اسى ليے جو اعمال اس مرتبہ – ربانيت – كى طرف لے جاتے ہيں وہ بے شمار ہيں انہيں احاطہ قيد ميں لانا ممكن نہيں، اور وہ ہمارى زندگى كے ہر شعبہ اور ہمارے وجود كى ہر جگہ پھيلے ہوئے ہيں، جو كہ ہم اور لوگوں پر اللہ تعالى كا فضل و كرم ہے.

صرف اتنا ہے كہ آپ جہاں بھى ہوں، اور جو لحظہ اور وقت بھى آپ كا گزرے، اسى ميں گزرے جس سے اللہ تعالى راضى ہو، اور اس ميں بسر ہو جس كے متعلق آپ كا خيال ہو كہ اللہ تعالى تمہيں اس كام پر ديكھنا چاہتا ہے، اور اس پر عمل بھى كريں، تو اس طرح آپ ربانى بن جائيں گے.

المرجع:

ماخوذ از: اسلام آن لائن ويب سائٹ

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android