0 / 0
2,23106/03/2022

ایک شخص نے بغیر ولی کے نکاح کیا اور پھر یہ سمجھتے ہوئے کہ عقد نکاح کو درست کرنے لیے طلاق لازمی ہے، تین طلاق دے دیں۔

سوال: 318922

ایک شخص نے لڑکی کے والد کی رضا مندی کے بغیر نکاح کیا، اور اپنے ہی ایک دوست کو لڑکی کا ولی بنا لیا پھر کچھ عرصے کے بعد اسے اپنے نکاح کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے، اس کے حل کے لیے اس نے کچھ ویڈیو کلپس دیکھے اور کچھ علمائے کرام کی تحریریں پڑھیں، اور اسے یہ معلوم ہو گیا کہ ان کا نکاح باطل ہے۔ اس نے یہ سمجھا کہ جب شادی باطل ہے تو اس پر طلاق دینا لازم ہے (یعنی فتوی سمجھنے میں غلطی کی کہ باطل نکاح کو طلاق کے ذریعے ختم کرنا ضروری ہے) تا کہ نیے سرے سے ولی کی اجازت کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکے، تو لڑکے نے اپنی بیوی کو کال کی اور کہا: تمہیں تین طلاق ہوں؛ کیونکہ ہماری شادی ٹھیک نہیں تھی۔
اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ باطل نکاح میں طلاق ہوتی ہی نہیں ہے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اسے معلوم ہوا کہ حنفی مذہب کے مطابق اس کا نکاح درست ہے، اور پھر اس نے اپنی بیوی کو پیغام پہنچایا کہ ہماری شادی ٹھیک تھی اور میں آپ سے رجوع کر لوں گا۔
میرا سوال یہ ہے کہ: کیا یہ طلاقیں واقع ہو چکی ہیں؟

جواب کا متن

اول:

کیا فاسد نکاح کو ختم کرنے کے لیے طلاق لازمی ہے؟

جمہور علمائے کرام کے ہاں ولی کے بغیر نکاح فاسد ہوتا ہے، جبکہ احناف کے ہاں نہیں ہوتا۔

لیکن فاسد نکاح کو اگر کوئی انسان ختم کرنا چاہے تو کیا طلاق کی ضرورت پڑتی ہے؟

اس بارے میں اختلاف ہے، چنانچہ حنبلی فقہائے کرام کے ہاں طلاق ضروری ہے، جبکہ شافعی علمائے کرام کے ہاں ضروری نہیں ہے۔

جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی لڑکی فاسد نکاح کر لے، تو کوئی اور شخص اس لڑکی سے اس وقت تک نکاح نہیں کر سکتا جب تک یہ اسے طلاق نہ دے دے یا نکاح فسخ نہ کر دے، اور اگر وہ طلاق دینے سے انکار کرے تو حاکم وقت اس کا نکاح فسخ کر دے ۔ امام احمد نے یہ موقف صراحت کے ساتھ پیش کیا ہے، جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: نکاح فسخ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ نکاح ہوا ہی نہیں ہے، یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی عدت کے دوران نکاح کر لے۔

ہماری دلیل یہ ہے کہ : اس مسئلے میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے؛ اس لیے دونوں میں جدائی ڈالنے کے لیے صحیح نکاح کو فسخ کرنے والا طریقہ ہی اپنایا جائے گا۔ نیز اگر پہلے فاسد نکاح کو ختم نہیں کریں گے تو ایک لڑکی پر دو خاوند مسلط ہو سکتے ہیں، اور دونوں ہی یہ کہیں گے کہ اس کا نکاح صحیح ہے، اور دوسرے کا نکاح غلط ہے۔
لہذا نکاح باطل مذکورہ دونوں صورتوں میں اس سے جدا ہے۔

اور اگر لڑکی کا نکاح تفریق سے قبل ہی کسی اور سے کر دیا گیا تو یہ دوسرا نکاح بھی صحیح نہیں ہو گا۔" ختم شد
المغنی: (7/ 11)

یہ معاملات تو اس وقت ہیں جب میاں بیوی اپنے تعلقات ختم کرنا چاہ رہے ہوں، لیکن اگر میاں بیوی اپنے تعلقات کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، اور عقد نکاح کو درست کرنا چاہتے ہیں تو پھر طلاق کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ صرف تجدید نکاح کریں گے۔

دوم:

کسی فاسد ظن یا غیر صحیح سبب پر مبنی طلاق واقع ہو جاتی ہے؟

اگر کوئی خاوند غلط فہمی کی وجہ سے کہ نکاح درست کرنے کے لیے طلاق ضروری ہے ، سے طلاق دے دے تو راجح موقف کے مطابق طلاق واقع نہیں ہو گی۔

جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جب کوئی شخص اپنی بیوی سے کہے: تمہاری زید سے گفتگو اور میرے گھر سے باہر جانے کی بنا پر تمہیں تین طلاق ہیں، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ بیوی نے زید سے بات نہیں کی تھی اور نہ ہی وہ گھر سے باہر گئی تھی تو اسے طلاق نہیں ہو گی۔۔۔

مقصود یہ ہے کہ: جب کوئی طلاق کو کسی وجہ کے ساتھ منسلک کرتا ہے، اور بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ وجہ رونما ہی نہیں ہوئی تو امام احمد رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ طلاق واقع نہیں ہو گی۔ ہمارے شیخ محترم ابن تیمیہ کے ہاں لفظوں میں اس وجہ کا ذکر کرنا ضروری بھی نہیں ہے، چنانچہ ان کے ہاں وجہ طلاق لفظوں میں بیان کی گئی ہو یا نہ بیان کی گئی ہو ، لیکن جب یہ بات واضح ہو گئی کہ وجہ رونما نہیں ہوئی تو طلاق نہیں ہو گی۔

کسی بھی فقہی مذہب میں اس کے علاوہ کوئی اور موقف جچتا ہی نہیں ہے، اور نہ ہی ائمہ کرام کے اصول و ضوابط اس کے علاوہ کسی اور موقف کا تقاضا کرتے ہیں۔

چنانچہ اگر خاوند کو کہا گیا: کہ تمہاری بیوی نے فلاں کے ساتھ شراب نوشی کی ہے، یا فلاں کے ساتھ رات گزاری ہے، تو خاوند نے کہہ دیا: گواہ رہو! میں نے اسے تین طلاقیں دیں۔ پھر اسے علم ہوا کہ وہ تو اس رات میں قیام اللیل کرتی رہی ہے۔ تو اس صورت میں قطعی طور پر طلاق نہیں ہو گی۔ نیز اس بات میں اور یہ کہنے میں کوئی فرق نہیں ہے کہ: اگر وہ ایسی ہی ہے تو پھر اسے تین طلاقیں ہیں۔ نہ تو قسم کی صورت میں، نہ ہی عرف میں اور نہ ہی شریعت میں۔

چنانچہ ان جملوں کی بدولت طلاق واقع کرنا محض وہم ہے؛ کیونکہ اس شخص نے ایسی خاتون کو طلاق دینے کا ارادہ ہی نہیں کیا جو ایسی نہ ہو، بلکہ اس کو طلاق دینے کا ارادہ کیا ہے جو ایسی ہو۔" ختم شد
" إعلام الموقعين" (4/ 90)

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص اپنی بات کی بنیاد کسی سبب پر رکھتا ہے، اور پھر پتہ چلتا ہے کہ وہ سبب تو رونما ہی نہیں ہوا، تو اس شخص کی بات بے اثر ہو گی۔

اس اصول پر بہت سے ذیلی مسائل کی بنیاد ہے، ان میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ: کچھ لوگ طلاق دیتے ہوئے اس طرح کی بات کرتے ہیں، مثلاً اپنی بیوی سے کہہ دیتے ہیں: اگر تم فلاں کے گھر میں گئی تو تمہیں طلاق۔ یہ فلاں کے گھر سے اس لیے روکا کہ اس کے گھر میں آلات موسیقی ہیں یا اسی طرح کی اور حرام چیزیں ہیں، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس مخصوص شخص کے گھر میں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ تو کیا اس کی بیوی اس مخصوص شخص کے گھر میں داخل ہو جائے تو اسے طلاق ہو گی یا نہیں؟

جواب یہ ہے کہ: اسے طلاق نہیں ہو گی؛ کیونکہ یہ طلاق ایسے سبب پر مبنی ہے جس کا عدم وجود واضح ہو چکا ہے، شرعی اصول اور حقیقت بھی یہی بنتی ہے۔" ختم شد

"الشرح الممتع" (6/ 245)

لہذا واضح ہوا کہ مذکورہ طلاق واقع نہیں ہو گی۔

لہذا اب دونوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ لڑکی کے ولی، یا ولی کے نمائندے کی موجودگی میں دو مسلمان گواہوں کے سامنے تجدید نکاح کریں۔

 واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android