0 / 0
18,82719/02/2014

“توریہ” (ذو معنی بات )کرنا کس وقت درست ہوگا؟ اور اسکی ضرورت کب پڑتی ہے؟

سوال: 27261

ذو معنی بات کرتے ہوئے اپنے آپ کو جھوٹ اور سچ کے درمیان رکھنا کب درست ہوتا ہے؟ اور اگر صرف ضرورت کے وقت ہی توریہ کیا جاسکتا ہو تو اس ضرورت کا معیار کیا ہوگا؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

“توریہ” عربی زبان کا لفظ ہے جسکا لغوی معنی کسی چیز کو چھپانے کا ہے۔

جیسے کہ قرآن مجید میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے:

فَبَعَثَ اللّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِي الأَرْضِ لِيُرِيَهُ كَيْفَ يُوَارِي سَوْءةَ أَخِيهِ قَالَ يَا وَيْلَتَا أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَذَا الْغُرَابِ فَأُوَارِيَ سَوْءةَ أَخِي فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِينَ

ترجمہ: پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کو کرید رہا تھاتاکہ اس (قاتل) کو دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپا سکتا ہے۔ (کوے کو دیکھ کر) وہ کہنے لگا”: افسوس! میں تو اس کوے سے بھی گیا گزرا ہوں کہ اپنے بھائی کی لاش کو چھپا سکتا” بعد ازاں وہ اپنےکئے پر بہت نادم ہوا۔ المائدة / 31

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے:

يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْءَاتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَىَ ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ

ترجمہ: اے بنی آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا جو تمہاری شرمگاہوں کو چھپاتا ہے اور زینت بھی ہے اور لباس تو تقویٰ ہی کا بہتر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ شاید لوگ کچھ سبق حاصل کریں۔ الأعراف / 26

اور اصطلاحی طور پر ایسی بات کو توریہ کہا جاتا ہے جس میں کہنے والا ایک ایسی بات کرتا ہےجس سے سننے والا کچھ سمجھے لیکن بات کرنے والا اس سے کوئی اور ممکنہ معنی مراد لیتا ہو، مثلاً: کوئی یہ کہے کہ : میری جیب میں ایک درہم بھی نہیں ہے، سننے والا اس سے یہ سمجھے کہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے کنگلا ہے بیچارہ، لیکن کہنے والے کا مقصد یہ ہو کہ میرے پاس چاندی کا درہم تو نہیں لیکن سونے کا دینار ہے، اسی کو “تعریض” اور “توریہ” کہا جاتا ہے۔

جب انسان کسی سے کچھ چھپانا چاہتا ہو اور اسکی کوشش ہو کہ میں جھوٹ بھی نہ بولوں اور مخاطب کو اصل حقیقت کا بھی پتہ نہ چلے تو “توریہ” ایسے مشکل حالات میں ایک شرعی حل ہے۔

توریہ شرعی مصلحت اور ضرورت کی بنا پر کرنا جائز ہے، لیکن ہمیشہ اسی پر عمل کرنا اور اپنی عادت بنا لینا درست نہیں ہے، چنانچہ کسی کا حق مارنے کیلئے یا باطل کام کا دفاع کرنے کیلئے توریہ جائز نہیں ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“علماء کہتے ہیں کہ: توریہ کیلئے قاعدہ یہ ہے کہ اگر واضح شرعی مصلحت کی بنا پر مخاطب کو دھوکہ دینے کی ضرورت پڑ جائے، یا کوئی ایسی ضرورت آن پڑے کہ جھوٹ کے بنا کوئی راستہ ہی نہیں ہے، تو اس وقت توریہ کیا جاسکتا ہے، چنانچہ اگر کوئی ضرورت نہ ہو تو توریہ کرنا مکروہ ہے، اور اگر توریہ کے ذریعہ کسی کا حق مارا جائے، یا کسی کے ساتھ زیادتی کی جائے تو اس وقت توریہ حرام ہوگا”

” الأذكار ” ( ص ‏380 )

بعض علماء نے بغیر کسی ضرورت اور حاجت کے بھی توریہ کو حرام قرار دیا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی بات کو درست قرار دیتے ہیں۔

دیکھیں: الاختيارات صفحہ: 563

کچھ حالات ایسے ہیں جہاں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے توریہ کرنے کی راہنمائی ملتی ہے، مثال کے طور پر:

جب کسی آدمی کا نماز کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو اس پریشان کن حالت میں کیا کرے؟

اسکا جواب یہ ہے کہ اپنی ناک کو پکڑے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر صف سے نکل جائے۔

اسکی دلیل عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کسی کا وضو نماز کے دوران ٹوٹ جائے تو اپنی ناک کو پکڑ کر صف میں سے نکل جائے)

سنن أبو داود ( 1114 ) ،اور یہ روایت ” صحيح سنن أبو داود ” ( 985 ) میں بھی ہے۔

طیبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“ناک پکڑنے کا حکم اس لئے دیا گیا ہے تا کہ یہ محسوس ہو کہ اسکی نکسیر –ناک سے خون کا نکلنا-پھوٹ پڑی ہے، اور یہ جھوٹ بھی نہیں ہے، بلکہ یہ عملی توریہ ہے، یہ کام کرنے کی رخصت اس لئے دی گئی ہے کہ کہیں شیطان نمازی کے ذہن میں دیگر نمازیوں سے شرم دِلا کر اسے بے وضو حالت مٰن نماز جاری رکھنے پر نہ اکسائے” انتہی

” مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ” ( 3 / 18 )

یہ ہے جائز توریہ کی شکل جس میں دیگر افراد کے ذہنوں میں کسی جائز کام کا تصور دیا جا رہا ہے، صرف اس لئے کہ نمازی کے ذہن میں کوئی خلفشار پیدا نہ ہو، اور دیکھنے والا یہ سمجھے کہ نمازی کی نکسیر پھوٹ گئی ہے۔۔۔ اسی طرح جب کسی مسلمان کو سخت حالات کا سامنا ہو، اور اسے ان حالات سے نکلنے کیلئے ، یا اپنی جان ، یا کسی بے گناہ کو بچانے کیلئے خلافِ حقیقت بات کرنے کی ضرورت پڑے تو اسکے لئے شرعی اور مباح طریقہ کار موجود ہے جسے “توریہ” کہا جاتا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کی کتاب الادب میں مستقل باب (116)قائم کیا، اور کہا: ” باب المعاريض مندوحة عن الكذب ” جھوٹ سے بچنے کیلئے کنایہ کرنے کا باب۔

درج ذیل میں ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب ” إغاثة اللهفان “سے توریہ کی کچھ مثالیں ہم آپکی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

حماد رحمہ اللہ کے بارے میں ذکر کیاجاتا ہے کہ جب ان کے پاس کوئی ایسا شخص بیٹھ جاتا جس کے ساتھ وہ بیٹھنا پسند نہ کرتے تو وہ خود ساختہ درد کا اظہار کرتے ہوئے کہتے: میری داڑھ!! میر ی داڑھ!! اور یہ کہتے ہوئے اس آدمی کے پاس سے اٹھ جاتے جس کے ساتھ بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

ایسے ہی ایک بار سفیان الثوری رحمہ اللہ کو خلیفہ مہدی کی مجلس میں لایا گیا، تو مہدی نے انکی بہت تعریف کی ، چنانچہ سفیان الثوری رحمہ اللہ نے اٹھ کر جانے کا ارادہ کیا تو خلیفہ نے انہیں شد ومد کے ساتھ بیٹھنے کیلئے کہا، جس پر انہوں نے قسم اٹھاتے ہوئے کہا میں ابھی آرہا ہوں، اور جاتے ہوئے انہوں نے اپنی جوتی دروازے کے پاس چھوڑ دی، اور کچھ ہی دیر کے بعد آکر اپنی جوتی اٹھائی اور چلتے بنے، جب خلیفہ نے ان کے بارے میں پوچھا تو بتلایا گیا کہ سفیان نے واپس آنے کیلئے قسم اٹھائی تھی تو وہ واقعی واپس آئے تھے اور اپنی جوتی لیکر چلے گئے۔

اسی طرح ایک بار امام احمد بن حنبل اپنے گھر میں تھے اور انکے ساتھ کچھ شاگرد بھی بیٹھے تھے جن میں مِروذی بھی تھے، ایک آدمی باہر سے آیا اور مِروذی کے بارے میں پوچھنے لگا، امام احمد نہیں چاہتے تھے کہ مِروذی انکی مجلس سے اٹھ کر جائے، تو امام احمد نے اپنی انگلی ہتھیلی پر رکھ کر کہا: مِروذی یہاں نہیں ہے، اور پھر یہاں مِروذی کا کیا کام ہے، اس ساری بات کا اشارہ امام احمد کی اپنی ہتھیلی کی طرف تھا، جبکہ باہر سے آنے والا آدمی اس کو نہ سمجھ پایا۔

توریہ کی مزید مثالوں میں یہ بھی ہے کہ :

آپ سے کسی کے بارے میں پوچھا گیا: کیا آپ نے فلاں شخص کو دیکھا ہے؟ اور آپ کو اندیشہ ہے کہ اگر میں نے اسکے بارے میں بتلا دیا تو یہ لوگ اسے قید میں ڈال دیں گے یا نقصان پہنچائیں گے، تو آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ میں نے اسے نہیں دیکھا، اور آپ کے دل میں یہ ہو کہ میں نے اسے ایک ہفتہ پہلے یا کسی خاص وقت میں نہیں دیکھا۔

اسی طرح کسی نے آپکو کہا کہ : تم مجھے قسم دو کہ فلاں شخص سے کلام نہیں کروگے، اور آپ نے اسے قسم دے دی، اور دل میں یہ سوچا کہ کلام سے مراد میں اسے زخم نہیں لگاؤں گا، کیونکہ کلام کا معنی لغت میں زخم لگانے کے معنی میں بھی آتا ہے۔

ایسے ہی اگر کسی نے آپکو کفریہ بات کہنے پر مجبور کیا، تو آپ کو کوئی بھی ذو معنی بات کہنے کی اجازت ہے مثلاً عربی میں آپ کہو گے، “کفرتُ باللاھی” ھاء کو لمبا کرکے، جسکا معنی ہوگا، میں نے لہو ولعب کرنے والے کا انکار کیا۔

إغاثة اللهفان : ابن القيم 1/381 اور ایسے ہی جلد دوم میں 2/106-107۔

توریہ اور کنایہ کے بارے میں آپ ابن مفلح کی کتاب: “الآداب الشرعیہ” میں ایک مستقل فصل:” في إباحة المعاريض ومحلها ” (1/14) بھی ملاحظہ کریں۔

مندرجہ بالا تفصیل کے بعد یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ایک مسلمان توریہ کا استعمال انتہائی شدید قسم کے حالات میں کرے ، اسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:

1- کثرت سے توریہ کرنے کی بنا پر انسان جھوٹ کی بیماری میں پڑ سکتا ہے۔

2- اسکی وجہ سے دوست احباب آپس میں گفتگو کرتے ہوئے اعتماد کھو بیٹھے گے، کیونکہ ہر وقت توریہ کے عادی شخص کے بارے میں یہی سوچا جائے گا کہ کیا اس نے جو بات کی ہے اسکا یہی مطلب ہے جو ہم نے سمجھا یا کچھ اسکے پیچھے پوشیدہ ہے؟

3- جب توریہ کرنے والے کے بارے میں مخاطب شخص کو پتہ چلے گا تو وہ اسے جھوٹا شخص قرار دے گا، اور یہ شرعی طور درست نہیں کیونکہ انسان کو شریعت نے شکوک وشبہات پیدا کرنے والے کام کرنے سے منع فرمایا ہے۔

4- اس کی وجہ سے توریہ کرنے والا شخص خود پسندی میں واقع ہوسکتا ہے، کہ اسکے ذہن میں یہ بات آئے گی کہ میں لوگوں کو پاگل بنا دیتا ہوں اور انہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔

یہ اقتباس کتاب: ” ماذا تفعل في الحالات الآتية ؟” سے لیا گیا ہے۔

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android