محفوظ کریں
  • New List
مزید
    محفوظ کریں
    • New List
6,07427/رمضان/1431 , 06/ستمبر/2010

عيد كے روز سے نماز عيد كى تاخير كرنا

سوال: 27004

كيا شوال كا چاند ديكھ كر بھى نماز عيد دوسرے دن تك مؤخر كرنا جائز ہے، تا كہ فيكٹريوں اور دفاتر ميں ملازمت كرنے والے سب مسلمان چھٹى ليكر نماز عيد ميں شامل ہو سكيں؟
كيونكہ ان كے ہاں پہلے سے عيد كا روز معروف نہيں، اس بنا پر ان كے ليے بعينہ عيد كے روز كى خبر اپنے افيسروں كو دينا مشكل ہے ؟

جواب کا متن

ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:

نماز عيد فرض كفايہ ہے؛ جب كچھ لوگ ادا كرليں تو باقى لوگوں سے گناہ ساقط ہو جاتا ہے، اور بعض اہل علم كا مسلك ہے كہ يہ نماز جمعہ كى طرح فرض عين ہے.

اس بنا پر كہ اسلامك سينٹر رؤيت ہلال كى بنا پر نماز عيد ادا كرنے كا اہتمام كرتا ہے، تو اس طرح جو وہاں حاضر نہ ہونے والے سے يہ نماز فرض كفايہ ساقط ہو جاتى ہے، اور اسے شوال كى دو يا تين تاريخ تك مؤخر كرنا جائز نہيں، تا كہ لندن كے سب لوگ نماز عيد ميں حاضر ہو سكيں؛ كيونكہ يہ تاخير صحابہ كرام اور ان كے بعد والے علماء كرام كے اجماع كے مخالف ہے.

ہمارے علم كے مطابق تو ايسا كسى بھى اہل علم نے نہيں كہا، جى ہاں لكين اگر انہيں عيد كا علم ہى زوال شمس كے بعد ہو تو پھر ان كے ليے شوال كے دوسرے دن تك نماز عيد كو مؤخر كرنا جائز ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.

حوالہ نمبر

ماخذ

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 289 )

ٹیکسٹ فارمیٹنگ کے اختیارات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

اسلام سوال و جواب ایپ

مواد تک فوری رسائی اور آف لائن مطالعہ کے لیے

download iosdownload android
عيد كے روز سے نماز عيد كى تاخير كرنا - اسلام سوال و جواب