0 / 0
1,18016/12/2023

ہم اپنے دلوں میں تقوی کیسے بڑھائیں؟

سوال: 228612

ہم اپنے دلوں میں تقوی کی مقدار کیسے زیادہ کر سکتے ہیں؟ کیونکہ میں ٹیلیویژن اور گیموں میں بہت زیادہ وقت ضائع کرتا ہوں، تو اس کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:
اللہ تعالی سب مسلمانوں کو تقوی اپنانے کا حکم دیا، اور بتلایا کہ دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کا ذریعہ تقوی ہی ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ترجمہ: اے ایمان والو! تقوی الہی ایسے اپناؤ جیسے اپنانے کا حق ہے، اور تمہیں موت آئے تو صرف اسلام کی حالت میں۔ [آل عمران: 102]

اسی طرح اللہ تعالی نے یہ بھی فرمایا:
وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ
 ترجمہ: اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، اللہ تعالی سے ڈرے، اور تقوی اپنائے، تو یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔[النور: 52]

اللہ تعالی نے یہ بھی بتلایا کہ اللہ تعالی متقی لوگوں کے ساتھ ہے، چنانچہ فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ
 ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی متقی لوگوں کے ساتھ ہے اور ان لوگوں کے ساتھ جو حسن کارکردگی کے حامل ہیں۔ [النحل: 128]

اللہ تعالی متقی لوگوں کو دوست بھی ہے، اسی حوالے سے فرمایا:
وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ
 ترجمہ: اور اللہ تعالی متقی لوگوں کا دوست ہے۔[الجاثیہ: 19]

نیز بتلایا کہ اچھا انجام بھی متقی لوگوں کا ہو گا، چنانچہ فرمایا:
وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
 ترجمہ: اور انجام کار متقی لوگوں کے حق میں ہو گا۔[الاعراف: 128]

دنیا و آخرت میں یہی متقی لوگ ہی نجات پانے والے ہیں اور کامیاب ہونے والے ہیں، فرمایا:
وَنَجَّيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
 ترجمہ: اور ہم نے ایمان لانے والوں کو نجات دی ، یہی لوگ تقوی اختیار کیے ہوئے تھے۔ [فصلت: 18]

اسی طرح فرمایا: ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا ترجمہ: پھر ہم متقی لوگوں کو نجات دیں گے۔ [مریم: 72]

ایک اور مقام پر فرمایا: إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا ترجمہ: یقیناً متقی لوگوں کے لیے ہی کامیابی ہے۔ [النبأ: 31]

اہل ایمان میں سے تقوی والے اللہ تعالی کے ولی ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
أَلا إِنَّ أَوْلِيَاء اللّهِ لاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ ، الَّذِينَ آمَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ
 ترجمہ: خبردار! یقیناً اللہ کے اولیا پر نہ خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور انہوں نے تقوی اختیار کیا۔ [یونس: 62 – 63]

اس حوالے سے قرآن کریم میں بہت زیادہ آیات ہیں۔

دوم:
اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل اور جن چیزوں سے روکا ہے ان سے رکنا تقوی کہلاتا ہے۔

حصولِ تقوی کے لیے معاون چیزیں: سب سے پہلے تو دنیا اور آخرت کے متعلق غور و فکر کرتے ہوئے ہر ایک کی ضروری مقدار کے بارے میں معلومات حاصل کریں، جب آپ یہ جان لیں گے تو پھر لازمی بات ہے کہ آپ آخرت میں جنت کی نعمتیں پانے اور جہنم کے عذاب سے بچنے کے لیے کوشش کریں گے، اسی لیے اللہ تعالی نے ہمیں سورت آل عمران کی آیت 133 میں بتلایا کہ جنت کو اللہ تعالی نے متقی لوگوں کے لیے تیار فرمایا ہے۔

دلوں میں تقوی زیادہ کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انسان اللہ تعالی کی بندگی اور اطاعت گزاری کے لیے خوب کوشش کرے، اس طرح اللہ تعالی اسے مزید ہدایت اور تقوی عنایت فرمائے گا، اور اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل میں مزید معاونت ملے گی، اللہ تعالی اپنے بندے کے لیے نیکی اور بھلائی کے ایسے دروازے کھول دے گا جو اس سے پہلے کبھی نہیں کھلے تھے، اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْواهُمْ
ترجمہ: اور جو لوگ ہدایت پر چلتے ہیں اللہ انہیں مزید ہدایت دیتا ہے اور انہیں تقوی بھی عنایت فرماتا ہے۔[محمد: 17]

روزے کے ذریعے بھی انسان تقوی حاصل کر سکتا ہے، اس کے لیے کثرت سے روزے رکھے؛ کیونکہ اللہ تعالی نے روزوں میں حصولِ تقوی کی خاصیت رکھی ہے، انسان روزے کی حالت میں نیکیاں کرنے کی طرف مائل ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے روزوں کی فرضیت کے بارے میں فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمْ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
 ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح لکھ دئیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کے گئے تھے، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔ [البقرۃ: 183]

اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے روزے رکھنے کی نصیحت کی اور تاکید فرمائی، نیز یہ بھی بتلایا کہ روزے جیسی کوئی عبادت نہیں، چنانچہ ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: "اللہ کے رسول! مجھے کوئی عمل بتلائیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم روزے رکھو؛ کیونکہ روزوں کے برابر کوئی عمل نہیں) آپ کہتے ہیں کہ میں نے پھر کہا: مجھے کوئی عمل بتلائی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں پھر فرمایا: (تم روزے رکھو؛ کیونکہ روزوں کے برابر کوئی عمل نہیں۔)" اس حدیث کو امام احمد: (22149)، نسائی: (4/165) اور دیگر نے روایت کیا ہے، اور البانیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

حصولِ تقوی کے لیے وہ صفات اپنائیں جو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متقی لوگوں کی ذکر کی ہیں، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُوْلَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُوْلَئِكَ هُمْ الْمُتَّقُونَ 
 ترجمہ: نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھر لو۔ بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر، روز قیامت پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان لائے۔ اور اللہ سے محبت کی خاطر اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سوال کرنے والوں کو اور غلامی سے نجات دلانے کے لیے دے۔ نماز قائم کرے اور زکاۃ ادا کرے۔ نیز جب عہد کریں تو اسے پورا کریں اور بدحالی، مصیبت اور جنگ کے دوران صبر کریں۔ ایسے ہی لوگ راست باز ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں۔ [البقرۃ: 177]

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:
وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ * الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنْ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ * وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ * أُوْلَئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ 
 ترجمہ: اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ ان متقی لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ [133] جو خوشحالی اور تنگ دستی (ہر حال) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی حسن کارکردگی کے حامل لوگوں سے اللہ محبت رکھتا ہے۔ [134] ایسے لوگوں سے جب کوئی برا کام ہو جاتا ہے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکے؟ اور وہ دیدہ دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے ۔ [135] ایسے لوگوں کی جزا ان کے پروردگار کے ہاں یہ ہے کہ وہ انہیں معاف کر دے گا اور ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ (اچھے) عمل کرنے والوں کا کیسا اچھا بدلہ ہے۔ [آل عمران: 133 – 136]

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پر عمل پیرا رہیں اور دین میں ایجاد کی جانے والی نت نئی بدعات سے اپنے آپ کو دور رکھیں، اس حوالے سے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
 ترجمہ: یقیناً یہی میرا سیدھا راستہ ہے، تم سب اسی کی اتباع کرو، اور دیگر راستوں کے پیچھے مت چلو وگرنہ یہ دیگر راستے تمہیں اللہ کے راستے سے [جدا کر کے] بکھیر دیں گے۔ اللہ تعالی تمہیں اسی کی تاکیدی نصیحت کرتا ہے، تا کہ تم متقی بن جاؤ۔[الانعام: 153]

تقوی حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالی کے حرام کردہ کاموں سے بچیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
ترجمہ: یہ اللہ تعالی کی حدیں ہیں، ان کے قریب بھی مت جاؤ؛ اللہ تعالی اپنی نشانیاں لوگوں کے لیے اسی طرح واضح کرتا ہے، تا کہ وہ متقی بن جائیں۔ [البقرۃ: 187]

ایسے ہی اللہ تعالی کی شرعی اور کونی نشانیوں میں غور و فکر کریں، فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ فِي اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا خَلَقَ اللَّهُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ
 ترجمہ: یقیناً رات اور دن کے آنے اور جانے میں، اور جو کچھ اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمین میں پیدا کیا ہے یہ سب متقی قوم کے لیے نشانیاں ہیں۔ [یونس: 6]

حصولِ تقوی کے لیے یہ بھی اللہ تعالی نے فرمایا:
وَكَذَلِكَ أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا وَصَرَّفْنَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ أَوْ يُحْدِثُ لَهُمْ ذِكْرًا
 ترجمہ: ہم نے اسی لیے قرآن کریم عربی میں نازل کیا ہے، اور اس میں وعید مختلف انداز سے بیان کی ہیں، تا کہ وہ متقی بن جائیں یا ان میں غور و فکر کی عادت پیدا ہو جائے۔ [طہ: 113]

تقوی الہی حاصل کرنے کے لیے درج ذیل امور بھی معاون ہیں:

-کثرت کے ساتھ اللہ تعالی کا ذکر کریں اور قرآن کریم کی تلاوت کریں۔

-اچھے کاموں کی ترغیب دلانے والے لوگوں کے ساتھ وقت گزاریں، بدعتی اور شریر قسم کے برے لوگوں سے دور رہیں۔

-اہل علم ، زاہد، عابد نیک اور صالح متقی لوگوں کی سیرت کا مطالعہ کریں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (14041 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

عقل مند شخص ہر وقت اللہ تعالی کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار رہتا ہے؛ کیونکہ اسے نہیں معلوم کہ کب موت آ جائے؛ کیونکہ اچانک موت آنے سے کوتاہی کا تدارک نہیں ہو سکے گا، اور پھر اس وقت ندامت کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

قیامت کے دن ہر انسان سے پوچھا جائے گا: (اس کی عمر کے بارے میں کہا فنا کی؟ اور اس کی جوانی کے بارے میں کہاں گزاری) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (2416)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

صحت اور فراغت دونوں ہی اللہ تعالی کی ایسی نعمتیں ہیں جن کی قدر بہت سے لوگوں کو تب ہوتی ہے جب یہ دونوں چھن جاتی ہیں، اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (دو نعمتوں کے متعلق بہت سے انسان نقصان میں ہیں: صحت اور فراغت) بخاری: (6412)

حدیث میں مذکور عربی لفظ "غبن" در حقیقت تجارت میں نقصان کو کہتے ہیں، تو یہاں نقصان سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنی صحت اور فراغت سے فائدہ نہیں اٹھا پاتا، بلکہ اپنی صحت اور فراغت کو ایسی سرگرمیوں میں ضائع کر دیتا ہے جس کا اسے دنیا یا آخرت میں فائدہ نہیں ہوتا، تو ایک تاجر کے لیے یہ بہت بڑا نقصان ہے کہ اسے صحت اور فراغت کے باوجود کوئی نفع نہ ملے، بلکہ صحت و فراغت ضائع کر بیٹھے۔

تو عقل مند شخص یہ جانتا ہے کہ اس نے بہت بڑی ذات کے سامنے جانا ہے، اس لیے وہ اس کی تیاری کرتا ہے۔

وہ یہ بھی جانتا ہے کہ دنیا میں اطاعت گزاری کی وجہ سے حاصل ہونے والی تھکاوٹ اس کے لیے آخرت میں راحت کا باعث ہو گی، اسی لیے کچھ سلف صالحین اللہ تعالی کی بندگی کے لیے بہت ہی زیادہ محنت کرتے تھے تو انہیں کسی نے کہا: آپ تھوڑی دیر کے لیے آرام کر لیتے، تو انہوں نے کہا: اپنے آرام کے لیے ہی محنت کر رہا ہوں!
ماخوذ از: " الفوائد " (ص 42)

اور کوئی بھی ایسی راحت جو دنیا میں اللہ تعالی کی نافرمانی کی وجہ سے ہو تو قیامت کے دن اللہ تعالی کی جانب سے معافی نہ ملنے کی صورت میں عذاب اور ندامت کا باعث بنے گی۔

واللہ اعلم

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android