0 / 0
5,49411/10/2017

ایک طالب علم اہل علم کے فتاوی لوگوں کے سوالات کے جواب میں نقل کرتا ہے، اسے اپنے اس عمل کے متعلق تردد ہے۔

سوال: 228377

میں سعودی عرب میں دینی علوم کا ابتدائی طالب علم ہوں، میرے کچھ رشتہ دار شام میں رہتے ہیں اور مجھے سوالات کے جواب تلاش کرنے کا کہتے ہیں میں ان کے سوالات کا جواب تلاش کرتا ہوں، مثلاً: وہ مجھے وتروں کے بارے میں پوچھتے ہیں تو میں آپ کا فتوی بتلا دیتا ہوں، وہ مجھ سے پردے کے بارے میں دلیل پوچھتے ہیں تو میں ابن باز، ابن عثیمین اور ان جیسے دیگر اہل علم کے فتاوی نقل کر دیتا ہوں، اسی طرح وہ عمومی سوالات بھی کرتے ہیں تو میں ان کا جواب محنت سے تلاش کرتا ہوں، اہل علم سے پوچھتا بھی ہوں تا کہ ان تک جواب پہنچا سکوں، میں انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا طریقہ بھی بیان کرتا ہوں تا کہ علم کی نشر و اشاعت ہو ۔
عام طور پر ان کے سوالات کے جواب میں آپ کی ویب سائٹ اور اسلام ویب کے فتاوی جات نقل کرتا ہوں، تو کیا ان کے ہر سوال کا جواب دینا اچھی بات ہے؟ کیونکہ مجھے بسا اوقات یہ وسوسے آتے ہیں کہ میں ابھی اہل علم کے مقام تک نہیں پہنچا اور ابھی سے ہی ان کے فتاوی آگے نقل کرتا ہوں ، اپنا موقف بتلاتا ہوں اور تلاش بھی کرتا ہوں۔۔۔ واضح رہے کہ جس سوال کا جواب میں نہیں جانتا تو بلا تاخیر اور بلا کسی تردد کے کہہ دیتا ہوں مجھے معلوم نہیں ہے، مجھ سے سوالات کرنے والے بہت زیادہ ہیں، تو آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ یہ بھی واضح رہے کہ میں جواب دینے سے پہلے ٹھوس جواب تلاش کرتا ہوں اور جب تک مجھے ٹھوس جواب نہ مل جائے تو میں سوال کا جواب نہیں دیتا۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اللہ تعالی آپ کو دینی علوم سیکھنے اور دوسروں کو سکھانے پر جزائے خیر سے نوازے، ہم آپ کو خوشخبری سناتے  ہیں کہ  اگر آپ اپنی نیت خالص رکھیں تو آپ کو ڈھیروں اجر و ثواب ملے گا، کیونکہ نبی کا فرمان ہے:  (بیشک اللہ تعالی رحمت فرماتا ہے اور  اللہ تعالی کے فرشتے ، آسمان و زمین کے مکین حتی کہ چیونٹی بھی اپنے بل میں  بلکہ مچھلیاں بھی  لوگوں کو خیر کی باتیں سکھانے والے کیلیے اللہ سے رحمت کی دعا کرتی ہیں) ترمذی: (2609) اسے البانی نے صحیح الجامع  (1838) میں صحیح قرار دیا ہے۔

دوم:

جو علم آپ نے سیکھا ہے اسے دوسروں کیلیے نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ:

1- آپ سوالات کے جواب  نقل کرتے ہوئے تاکید کر لیں کہ ان جوابات کا ماخذ معتمد ہے۔

2- جس بات کو آپ نقل کر رہے ہیں اس کے فہم کے متعلق آپ مطمئن ہوں، مبادا جواب نقل کرتے ہوئے  غلطی نہ ہو۔

علمی گفتگو کسی سے نقل کرنے والے کیلیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ خود بھی عالم اور مجتہد ہو، البتہ یہ شرط ضرور ہے کہ جس بات کو نقل کر رہا ہے اسے سمجھ رہا ہو، جیسے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “لوگو! میں تمہیں ایک بات کہنے والا ہوں۔۔۔چنانچہ جو شخص اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے  تو وہ اسے جہاں تک اس کی رسائی ہوتی ہے وہاں تک بیان کرے، اور اگر کسی کو خدشہ ہو کہ اسے سمجھ نہیں آئی تو میں کسی کو اجازت نہیں دیتا کہ مجھ پر جھوٹ بولے” بخاری: (6830)

ابن بطال رحمہ اللہ اس قول کی تشریح میں کہتے ہیں:
[عربی متن کے الفاظ]” فمن عقلها ووعاها فليحدث بها ” [جو شخص اس بات کو اچھی طرح سمجھ لے  تو وہ بیان کرے]کا مطلب یہ ہے کہ جس قدر اس نے سمجھا اور یاد رکھا ہے اسے بیان کرے۔

اس اثر میں  علم کو یاد کرنے اور سمجھنے والے لوگوں کو ترغیب ہے کہ اس کی تبلیغ کریں اور اس کی نشر و اشاعت میں اپنا کردار ادا کریں۔

جبکہ [عربی متن کے الفاظ]” ومن خشى ألا يعقلها فلا أحل له أن يكذب علىَّ ” [کسی کو خدشہ ہو کہ اسے سمجھ نہیں آئی تو میں کسی کو اجازت نہیں دیتا کہ مجھ پر جھوٹ بولے]  میں یہ ہے کہ جو لوگ میری گفتگو کو سمجھنے اور یاد رکھنے میں کوتاہی کا شکار ہو جائیں وہ آگے مت بیان کریں” ختم شد
ماخوذ از: “شرح صحیح بخاری” (8/459)

اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
“اگر مجھے کسی مسئلے کے بارے میں کسی بہت بڑے عالم دین کا فتوی معلوم ہو  تو اس کے مطابق جواب دینے کا کیا حکم ہے؟”

تو انہوں نے جواب دیا:
“معتمد علمائے کرام کے موقف کے مطابق  فتوی دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن فتوی دیتے ہوئے الفاظ یوں ہونے چاہییں: “فلاں عالم دین نے یوں کہا ہے” اور اس کیلیے شرط یہ ہے کہ آپ کو ان کے موقف کا یقینی علم ہو، نیز آپ کو یہ بھی علم ہو کہ انہوں نے یہ بات ایسے ہی سوال کے بارے میں  کی تھی جو سوال آپ سے اب پوچھا گیا ہے۔

البتہ آپ نسبت کئے بغیر فتوی دیں تو یہ مناسب نہیں ہے؛ کیونکہ  جب آپ نسبت کئے بغیر فتوی دیں گے تو یہ آپ اپنی طرف منسوب کریں گے ، اور  جب آپ کسی  فتوی کو دوسرے کی نسبت بیان کر کے ذکر کریں گے تو پھر اس فتوے کے اثرات سے بچ جائیں گے، اور آپ ایسی باتوں سے بھی محفوظ رہیں گے جن کی ابھی آپ میں صلاحیت نہیں ہے۔

اس لیے جو شخص کسی کا قول نقل کر رہا ہے اس چاہیے کہ اس قول کو اس کے قائل سے منسوب کر کے بیان کرے اپنی طرف منسوب مت کرے، البتہ جو شخص کتاب و سنت سے خود مسئلہ اخذ کرے  اور وہ مسئلہ اخذ کرنے کا اہل بھی ہو تو  وہ اپنی طرف منسوب کرتے ہوئے فتوی نقل کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے” ختم شد
ماخوذ از:  ” مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین” (26/409)

البتہ یہ بہتر اور محتاط عمل ہو گا کہ بھیجے گئے سوال  اور آپ کے تلاش کردہ جواب  کو آپ اپنے قریبی کسی  عالم دین کو دکھا دیں یا اپنے سے بڑے کسی طالب علم کو دکھا دیں تا کہ یہ بات پختہ ہو جائے کہ آپ نے سوال کو صحیح سمجھا ہے اور پھر اس کا جواب صحیح تلاش کیا ہے۔

لیکن اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو پھر اہل علم کا حاصل شدہ کلام  بھیج دیں اسے بلا فائدہ اپنے پاس ضائع مت ہونے دیں۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (103895) کا جواب ملاحظہ کریں

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android