سوال: کیا برف سے مورتی بنانا جائز ہے؟
برف سے بنی مورتی کے بارے میں تفصیل
سوال: 226557
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اگر برف سے بنی ہوئی مورتی میں آنکھ، ناک، اور منہ وغیرہ پر مشتمل خدو خال واضح نہیں ہیں تو یہ خدو خال سے عاری ایک مجسمہ ہے، جیسے کھیتوں میں پرندوں کو بھگانے کیلئے انسانی جسامت نما کسی چیز کو گاڑ دیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح کے مجسمے راستے کی مرمت کے دوران ڈرائیور وں کو متنبہ کرنے کیلئے لگا دیے جاتے ہیں۔۔ تو ان سب میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور یہی حکم کھیلنے کیلئے بچوں کی طرف سے بنائی جانے والی برفانی مورتیوں کا ہے؛ کیونکہ بچے انہیں اپنے قدموں تلے روند بھی دیتے ہیں، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بچوں کو نفسیاتی طور پر خوش رکھنے کیلئے ان چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے، خصوصا ایسی جگہوں میں جہاں کبھی کبھار برف باری ہو ۔
اور اگر برف سے بنی ہوی مورتی میں چہرے کے تمام خدو خال عیاں ہوں، تو جمہور اہل علم اس کے حرام ہونے کے قائل ہیں، کیونکہ مورتیاں بنانے کی ممانعت عام ہے، اور اس بارے میں تفصیل سوال نمبر: (146628) میں گزر چکی ہے، نیز گوندھے ہوئے آٹے یا حلوے وغیرہ سے بنی ہوئی مورتی کا بھی یہی حکم ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ برف وغیرہ سے بنی ہوئی مورتی کا معاملہ ایسی مورتیوں کے مقابلے میں قدرے ہلکا ہے جو اپنی ماہیت کی وجہ سے عرصہ دراز تک قائم رہ سکتی ہیں؛ اور اسی طرح برف وغیرہ سے بنی ہوئی مورتیوں کو روندا بھی جاتا ہے، اس اعتبار سے بھی انکا معاملہ دیگر مورتیوں سے قدرے ہلکا ہے، یہ بات مشہور ہے کہ ممانعت کے بھی درجے ہوتے ہیں، تاہم شرعی دلائل مورتیوں سے منع کرنے کے بارے میں عام ہیں، [چنانچہ کسی بھی چیز سے کوئی مورتی بنائے وہ ممانعت میں شامل ہونگی]
مورتی میں اصل چیز سر کا حصہ ہوتا ہے، چنانچہ اگر مورتی کا سر کاٹ دیا جائے، یا چہرے کے خدو خال مٹا دیے جائیں تو ممانعت زائل ہو جائے گی، جیسے کہ بیہقی: (14580) میں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : “صورت اصل میں سر ہے، چنانچہ اگر اس کا سر کاٹ دیا جائے تو ، صورت باقی نہیں رہے گی”
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“اگر صورت ابتدا میں صرف بدن کی ہو ؛ سر شامل نہ ہو تو یہ ممانعت میں داخل نہ ہوگی، کیونکہ یہ کسی جاندار کی صورت نہیں ہے” انتہی
” المغنی” (7/282)
اور سنن ابو داود : (4158) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے پاس جبریل آئے، تو انہوں نے مجھے کہا: میں آپکے پاس گزشتہ رات بھی آیا تھا، لیکن مجھے اندر داخل ہونے سے صرف اس بات نے روکا کہ دروازے پر مورتیاں بنی ہوئی تھیں۔۔، تو آپ ان کے سر کاٹنے کا حکم دے دیں تو وہ درخت کی طرح ہوجائیں گی۔۔۔)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ایسا ہی کیا۔
مبارکپوری رحمہ اللہ “تحفۃ الأحوذی” (8/73)میں کہتے ہیں:
“اس حدیث میں دلیل ہے کہ جب کسی صورت کی ہیئت تبدیل کر دی جائے ، یعنی اس کا سر کاٹ دیا جائے، یا خد وخال مٹا دیے جائیں کہ بعد میں صرف صورت کی شبیہ سی باقی رہ جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے” انتہی
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر صورت واضح نہ ہو ، یعنی: اسکی آنکھیں، ناک، منہ، اور انگلیاں وغیرہ واضح نہ ہو تو یہ مکمل صورت نہیں ہے، اور نہ ہی تخلیق الہی کا مقابلہ ہے”
انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ:
“اور روئی سے بنی ہوئی [گڑیا وغیرہ] جس کی شکل کوئی اتنی واضح نہیں ہوتی، اگر چہ اسکے اعضا سر، گردن سمیت موجود ہوتے ہیں، لیکن سر میں آنکھیں، ناک نہیں ہوتی، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ یہ تخلیق ِ الہی کا مقابلہ نہیں ہے” انتہی
مجموع فتاوى الشيخ (2/278)
واللہ اعلم.
ماخذ:
الشيخ محمد صالح المنجد