0 / 0

قیدی کے لئے نماز قصر اور جمع کرنا جائز ہے؟

سوال: 222814

میرا بیٹا یونیورسٹی میں پڑھتا ہے، اسے ایک پر امن احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی بنا پر پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے، وہ اس وقت ہماری رہائش سے 100 کلو میٹر دور جیل میں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ان کے لئے دوران قید نمازوں کو قصر اور جمع کرنا جائز ہے؟ بطور خاص یہ بھی کہ انہیں نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک دیا گیا ہے، انہوں نے تقریباً دس ماہ سے نماز جمعہ ادا نہیں کی؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اگر کوئی قیدی اپنے شہر سے دور کسی اور جگہ قید ہو اور اس کی مسافت نماز کے قصر کرنے والی ہو تو وہ مسافر کے حکم میں ہے۔

چنانچہ اگر اسے معلوم نہیں ہے کہ وہ کب قید سے نکلے گا؟ تو ضرورت کے وقت نمازیں جمع کر سکتا ہے، یہاں تک کہ اسے معلوم ہو جائے کہ وہ جیل سے کب نکلے گا یا اسے علم ہو جائے کہ وہ چار دن سے زیادہ جیل میں گزارے گا۔

اگر اسے علم ہو جائے کہ وہ چار دن سے زیادہ جیل میں گزارے گا تو اس کا حکم ایسے شخص کا ہو گا جس پر اس سے زیادہ قید کا حکم لاگو کیا گیا ہے: اس لیے وہ سفر کی رخصتوں پر عمل نہیں کر سکتا، یہ جمہور فقہائے کرام کا موقف ہے۔

اور جمہور فقہائے کرام کے ہاں سفر کی رخصتوں پر عمل کرنے کے لئے جو مسافت مقرر ہے وہ تقریباً اسی کلومیٹر ہے، لہذا اگر کوئی شخص 80 کلومیٹر یا اس سے زیادہ سفر یک طرفہ کرے تو وہ سفر کی رخصتوں پر عمل کر سکتا ہے، یعنی تین دن اور تین راتیں موزوں پر مسح کر سکتا ہے، نمازیں جمع اور قصر کر سکتا ہے اسی طرح رمضان کے روزے مؤخر کر سکتا ہے۔

اور ایسا مسافر جو کسی علاقے میں ٹھہرا تو ہوا ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ اس کا کام کب ختم ہو گا، نہ ہی اس علاقے میں ٹھہرنے کی کوئی مدت معین ہے تو وہ سفر کی رخصتوں پر عمل کرے گا، چاہے مدت چار دن سے زیادہ لمبی ہو جائے۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (2/215) میں کہتے ہیں:
"جو شخص اکیس نمازوں سے زیادہ قیام کرنے کی پختہ نیت نہ کرے تو وہ قصر نماز پڑھ سکتا ہے، چاہے اسے کئی سال قیام کرنا پڑے، مثلاً: وہ اپنے کسی ایسے کام کو پورا کرنے کے لئے قیام کرے جس کے پورے ہونے کی امید ہو، یا دشمن سے جہاد کے لئے یا حکمران اسے قید کر دے، یا بیماری اسے سفر نہ کرنے دے۔ [ان تمام صورتوں میں] حکم یکساں ہی رہے گا چاہے اس کے گمان میں کام جلد پورا ہونے کا امکان ہو یا دیر سے، [تاہم اتنا ہے کہ] اسے اتنی مدت کے بعد کام مکمل ہونے کا گمان ہو جس سے سفر کا حکم کالعدم نہیں ہوتا۔

ابن المنذر رحمہ اللہ کہتے ہیں: اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ مسافر جب تک اقامت پذیر ہونے کی نیت نہیں کرتا تو وہ قصر کر سکتا ہے، چاہے وہ اس طرح سالہا سال گزار دے" ختم شد

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (105844) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

الگ الگ کوٹھڑیوں میں مقید قیدیوں پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے، لیکن اگر ان کے لیے جیل خانے کی مسجد میں جمعہ ادا کرنا ممکن ہو تو ان پر نماز جمعہ ادا کرنا واجب ہے۔

اگر جیل کے قیدیوں کے لئے جیل خانے کی مسجد میں پانچوں نمازیں ادا کرنا ممکن نہ ہو تو سب اپنی اپنی جیل میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں گے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"علما سپریم کونسل کی جانب سے جاری فتوی میں ہے کہ انہوں نے تمام قیدیوں کو ان کی اپنی اپنی کوٹھڑی میں رہتے ہوئے ایک ہی امام کی اقتدا میں نماز با جماعت پر موافقت نہیں کی؛ کہ تمام قیدی صرف لاؤڈ اسپیکر کی آواز کے ذریعے امام کی  اقتدا کریں؛ اس لیے کہ ان پر نماز جمعہ واجب ہی نہیں ہے؛ کیونکہ وہ نماز جمعہ کے لئے جا ہی نہیں سکتے، نیز عدم وجوب کے دیگر اسباب بھی ہے۔

اور اگر کسی قیدی کو جیل خانے کی مسجد میں نماز جمعہ کے لئے جانے کی اجازت ہو اور وہاں پر نماز جمعہ ادا بھی کی جاتی ہو تو وہ جماعت کے ساتھ جمعہ ادا کرے گا، بصورت دیگر نماز جمعہ قیدی سے ساقط ہو جائے گی، اور ظہر کی نماز ادا کرے گا۔

اگر قیدیوں کے لئے مسجد یا کسی بھی جگہ اکٹھے ہو کر نماز با جماعت ادا کرنا ممکن نہ ہو تو ہر حوالات کے لوگ اکٹھے ہو کر پانچوں نمازیں با جماعت ادا کریں گے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (12/ 155-156)

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"جیل کے اندر یا کسی بھی جگہ پر جمعہ ادا کیا جائے اور قیدیوں کے لئے وہاں جانا ممکن بھی ہو تو قیدیوں  پر جمعہ ادا کرنا واجب ہے، اور اگر وہاں جانا ممکن نہ ہو تو پھر جمعہ کی جگہ ظہر کی نماز ادا کریں گے۔" ختم شد
فتاوی دائمی فتوی کمیٹی: (8/184)

لہذا اگر ان قیدیوں کے عدالتی فیصلے سنائے جا چکے ہیں، اور وہ ان عدالتی احکامات کو ہی جیل میں رہتے ہوئے بھگت رہے ہیں تو پھر ان کا حکم مقیم شخص کا ہے، چنانچہ یہ لوگ نمازیں قصر یا جمع نہیں کر سکتے، نہ ہی رمضان میں روزے چھوڑ سکتے ہیں، یہ لوگ با جماعت نماز ادا کریں گے، ہر گروپ اپنی اپنی جگہ میں اکٹھے ہو کر نماز ادا کرے گا، اسی طرح ان پر نماز جمعہ فرض نہیں ہے، الا کہ جیل خانہ کی انتظامیہ کی جانب سے انہیں جیل کی مسجد میں جمعہ ادا کرنے کی اجازت دے دی جائے تو ان پر جمعہ ادا کرنا واجب ہو جائے گا۔

لیکن اگر صورت حال ایسی ہو کہ انہیں معلوم نہیں ہے کہ کل وہ کہاں پر ہوں گے، اور جیل انتظامیہ کی جانب سے انہیں ایک شہر سے دوسرے شہر میں منتقل کیا جاتا رہتا ہے تو پھر ایسی صورت میں وہ سفر کی رخصتوں پر عمل کریں گے، ان کے لئے نمازیں قصر اور جمع کرنے کی اجازت ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی مظلوم قیدیوں کو آزادی نصیب فرمائے، مشکل میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کی مشکل کشائی فرمائے۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (81421) کا جواب ملاحظہ کریں۔

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android