سوال: میں نے آپ کی ویب سائٹ پر خواتین کے زیور پر زکاۃ واجب ہونے سے متعلق متعدد فتاوی جات پڑھے ہیں ، لیکن میں نے کچھ مشائخ سے سنا ہے کہ خواتین کے زیور میں زکاۃ واجب نہیں ہوتی، اس اختلاف کا کیا سبب ہے؟ اور اس بارے میں صحیح موقف کیا ہے؟
زیور کی زکاۃ کے بارے میں اہل علم کی تفصیلی آراء اور انکےدلائل
سوال: 221758
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سونا اور چاندی سکوں کی شکل میں ہوں یا ڈلی کی شکل میں اس کی زکاۃ ادا کرنا واجب ہے۔
لیکن سونے اور چاندی سے بنے ہوئے خواتین کے زیورات سے متعلق اختلاف ہے، کہ ان میں زکاۃ ہوگی یا نہیں؟
چنانچہ جمہور علمائے کرام کے ہاں زیورات کی شکل میں سونے چاندی کو استعمال کرنے پر یہ ایسے مال سے خارج ہو جاتے ہیں جن پر زکاۃ لاگو ہوتی ہے؛ کیونکہ زیورات میں اضافے کا امکان نہیں ہوتا۔
جبکہ احناف اس بات کے قائل ہیں کہ زیب و زینت کیلئے زیورات استعمال کرنا زکاۃ واجب ہونے میں رکاوٹ نہیں ہے، انہوں نے اپنے اس موقف کیلئے اصل کو دلیل بنایا ہے اور اسی طرح احادیث بھی ان کی تائید کرتی ہیں۔
دوم:
سونے چاندی کے زیورات پر زکاۃ سے متعلق علمائے کرام کے مابین اختلاف تین شرائط کو مدنظر رکھ کے سمجھنا چاہیے، جو کہ درج ذیل ہیں:
1-زیور سونے یا چاندی سے بنا ہوا ہو
چنانچہ اگر زیور کسی اور چیز سے بنا ہوا ہے تو اس میں بالاجماع زکاۃ نہیں ہوگی۔
ابن عبد البر رحمہ اللہ کہتے ہیں: “اگر جواہرت، یاقوت وغیرہ کے زیور بنے ہوئے ہوں اور ان میں سونا یا چاندی استعمال نہ کیا گیا ہو تو بالاجماع اس پر زکاۃ نہیں ہوگی” انتہی
” الاستذكار” (3/153)
اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ہیرے ، جواہرات وغیرہ سے بنے ہوئے زیورات کی تجارت مقصود نہ ہو تو ان میں زکاۃ نہیں ہے”انتہی
” فتاوى ابن باز ” (14/124)
2-شرعی طور پر زیور جائز ہو
چنانچہ شرعی طور پر حرام زیور میں تمام علمائے کرام کے ہاں زکاۃ واجب ہوگی؛ کیونکہ غیر شرعی زیور ہونے کی وجہ سے زکاۃ کی ادائیگی ساقط نہیں ہو سکتی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ شریعت کی رو سے یہ زیور ہی منع ہے، تو اس کا حکم استعمال میں نہ آنے والی چیز کا ہی ہوگا۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“جس شخص کے پاس سونے یا چاندی سے بنی ہوئی کوئی حرام چیز موجود ہو ، مثال کے طور پر مرد اپنے لئے گلے کا کڑا بنا لے، یا سونے کی انگوٹھی پہنے، اسی طرح قرآن مجید کی آرائش کیلئے سونے کا استعمال کرے، قلمدان، دوات، چراغ وغیرہ بنائے تو اس میں زکاۃ واجب ہوگی، کیونکہ ایسی چیزیں بنا کر استعمال کرنے سے سونے کی اصلیت باقی رہے گی” انتہی
” الكافی ” (1/405)
اور نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حرام زیورات میں بالاجماع زکاۃ واجب ہوگی” انتہی
“روضة الطالبين” (2/260)
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ “شرح الکافی” میں کہتے ہیں:
“اسی طرح کوئی عورت سانپ کی شکل کے کڑے بنوائے تو یہ حرام ہے؛ کیونکہ [جانوروں کی شکل پر مشتمل ]ایسے زیورات پہننا حرام ہے، یا اسی طرح شیر کی شکل کا ہار پہنے تو یہ بھی حرام ہے، اور اس کی زکاۃ ادا کرنا ہوگی، اسی طرح مرد سونے کی انگوٹھی بنوا کر پہنے تو نصاب پورا ہونے کی صورت میں اس میں بھی زکاۃ ہوگی” انتہی
اسی طرح ” الموسوعة الفقهية ” (18/113) میں ہے کہ:
“تمام فقہائے کرام حرام طریقے سے زیر استعمال زیور پر زکاۃ واجب ہونے کے قائل ہیں ، مثال کے طور پر مرد سونے کا زیور استعمال کرے” انتہی
3-زیور استعمال کیلئے تیار کیا گیا ہو
چنانچہ ایسے زیور کے بارے میں ہی اختلاف ہے جو کہ انسان استعمال اور زینت کیلئے تیار کرواتا ہے۔
اور ایسا زیور جو استعمال اور زینت کیلئے تیار نہ کروایا جائے بلکہ تجارت، یا کرایہ پر دینے کیلئے یا پھر اپنی رقم محفوظ کرنے کیلئے تیار کیا جائے تو اس میں سب کے نزدیک زکاۃ ہوگی سب کا یہی ایک موقف ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ایسا زیور جو کرایہ پر دینے کیلئے یا ضرورت کے وقت بیچ کر استعمال کرنے کیلئے تیار کیا جائے تو اس میں زکاۃ ہوگی، کیونکہ صرف اسی وقت زیور کی زکاۃ ساقط ہوتی ہے جب زیور کو استعمال کیلئے تیار کیا جائے، اور ذاتی استعمال کی صورت میں زیور سے منافع نہیں ملتا، چنانچہ ذاتی استعمال کے علاوہ کوئی بھی صورت ہو تو اسے اصل پر قائم رکھا جائے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص زیور بناتا ہی اسی لیے ہےکہ زکاۃ ادا نہ کرنی پڑے تو اسے بھی زکاۃ ادا کرنی ہوگی” انتہی
” المغنی ” (4/221)
اسی طرح “کشف القناع”(2/234) میں ہے :
“مرد یا عورت کیلئے شرعی طور پر جائز سونے یا چاندی کے زیور میں کوئی زکاۃ نہیں ہے، چاہے اس زیور کو ذاتی استعمال کیلئے تیار کیا جائے یا عاریۃً دینے کیلئے ، اسی طرح اگر زیور بنا کر ذاتی استعمال میں نہ لائیں یا عاریۃً دینے کا موقع ہی نہ بنے تب بھی زکاۃ واجب نہ ہوگی” انتہی
سوم:
اہل علم کا “سونے یا چاندی کے ذاتی استعمال کیلئے تیار شدہ جائز زیور” کی زکاۃ کے بارے میں وسیع اختلاف ہے۔
اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ :
ایسی کوئی صحیح صریح نص موجود نہیں ہے جس میں زکاۃ کے وجوب یا نفی کا ذکر ہو، چنانچہ جتنی بھی احادیث اس بارے میں موجود ہیں یا تو ان کے پایہ ثبوت تک پہنچنے میں اختلاف ہے، یا پھر ان کے سمجھنے میں اختلاف ہے۔
اسی طرح اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ:
کچھ اہل علم نے زیور جس چیز سے بنائے گئے ہیں اس چیز کا اعتبار کرتے ہوئے کہا ہے کہ : “چونکہ یہ زیورات ایسی معدنیات سے بنے ہیں جنہیں لوگ آپس کے لین دین کیلئے استعمال کرتے ہیں، اور اس معدنیات میں بالاجماع زکاۃ بھی واجب ہوتی ہے، اس لیے زیورات میں بھی زکاۃ واجب ہوگی، چنانچہ انہوں نے ڈھلائی کیے ہوئے سونے چاندی کے زیورات اور سکوں پر زکاۃ واجب قرار دی۔
جبکہ دیگر اہل علم نے اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ یہ زیورات سنار کی محنت اور ڈیزائننگ کی وجہ سے سونے چاندی کے سکوں سے مشابہت نہیں رکھتے، چنانچہ انہیں گھریلو سامان ، کپڑے، اور دیگر ایسی چیزوں میں شامل کیا جنہیں انسان اپنی ذاتی ضروریات کیلئے استعمال کرتا ہے، اور اس قسم کی چیزوں پر بالاجماع زکاۃ واجب نہیں ہوتی، چنانچہ اس بنا پر دیگر اہل علم نے یہ کہہ دیا کہ زیورات میں زکاۃ نہیں ہوگی۔
زیورات پر زکاۃ واجب ہونے کے قائلین میں : احناف، احمد[ایک روایت کے مطابق] ، ابن منذر، خطابی، ابن حزم اور صنعانی ، جبکہ معاصر علمائے کرام میں ابن باز، ابن عثیمین ، اور دائمی فتوی کمیٹی نے بھی اسی کے مطابق فتوی صادر کیا ہے۔
ان کے ہاں زیورات پر زکاۃ واجب ہونے کیلئے سب سےقوی ترین دو چیزیں ہیں:
1-ایسی تمام احادیث اور نصوص جن میں سونے اور چاندی کی زکاۃ دینے کا حکم عام پایا جاتا ہے، کہ ان میں کسی بھی قسم کے سونے اور چاندی کو استثنا نہیں دیا گیا، مثال کے طور پر حدیث ہے:
(چاندی میں چالیسواں حصہ ہے)
اور اسی طرح حدیث ہے کہ:
(پانچ اوقیہ [200 درہم]سے کم میں زکاۃ نہیں ہے)
ابن حزم کہتے ہیں:
“جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ : (چاندی میں چالیسواں حصہ ہے) اور اسی طرح : (پانچ اوقیہ [200 درہم]سے کم میں زکاۃ نہیں ہے) تو جب زیورات بھی چاندی ہیں تو اس میں زکاۃ واجب ہوگی، کیونکہ چاندی کے زیورات دونوں صحیح احادیث کے زمرے میں آتے ہیں۔
جبکہ سونے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ : (کوئی بھی سونے کا مالک شخص اپنے سونے کی زکاۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کیلئے آگ کی پلیٹیں بنا کر ان سے داغا جائے گا۔۔۔) چنانچہ ان حدیث کی رو سے سونے پر بھی زکاۃ لاگو ہوگی۔۔۔، لہذا سونے یا چاندی کی کسی بھی صورت کو بغیر نص یا اجماع کے زکاۃ سے مستثنی نہیں کیا جا سکتا” انتہی
” المحلى بالآثار” (4/191)
بلکہ ان تمام دلائل سے پہلے فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ
ترجمہ: جو لوگ سونا اور چاندی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، تو انہیں درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیں۔ [التوبة : 34]
اور زیورات سونے چاندی میں شامل ہوتے ہیں۔
چنانچہ جصاص رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“سونے اور چاندی کے عموم سے ہر قسم کے سونے چاندی پر زکاۃ واجب ہوگی، کیونکہ اللہ تعالی نے جس چیز کا نام سونا یا چاندی ہے اس پر زکاۃ فرض کی ہے، اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس چیز کو بھی سونا یا چاندی کہا جائے گا چاہے اس پر محنت نہ بھی ہو تب بھی زکاۃ واجب ہوگی، اور اگر کسی کے پاس سونا زیورات یا سکوں یا ڈلی، یا چاندی کی ڈلی ہو تو اس پر بھی آیت میں مذکور سونے چاندی کے عموم کی وجہ سے زکاۃ لاگو ہوگی ” انتہی
” أحكام القرآن ” (4/303)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہ آیت ہر قسم کے سونے چاندی کے بارے میں ہے، کیونکہ اس میں کسی خاص قسم کے سونے کی تخصیص نہیں کی گئی، چنانچہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ جائز زیور اس آیت سے خارج ہے تو وہ دلیل پیش کرے” انتہی
” الشرح الممتع ” (6/276)
2-ایسی احادیث جن میں زیورات پر زکاۃ واجب ہونے کا معنی پایا جاتا ہے، اور ان احادیث میں سے تین مشہور ترین ہیں:
الف: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: “میرے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور میرے ہاتھوں میں چاندی کی بڑی انگوٹھیاں تھیں:
تو آپ نے فرمایا: عائشہ یہ کیا ہیں؟
میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے یہ اس لیے بنوائی ہیں کہ انہیں پہن کر آپ کیلئے زینت اختیار کروں۔
آپ نے فرمایا: کیا تم ان کی زکاۃ دیتی ہو؟
میں نے عرض کیا: نہیں!
تو آپ نے فرمایا: تمہیں آگ کیلئے یہی کافی ہیں!”
ابو داود: (155) نے اسے روایت کیا ہے اور حافظ ابن حجر و شیخ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
جبکہ ترمذی، دارقطنی ، ذہبی، اور ابن عبد الہادی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
مزید کیلئے دیکھیں: ” سنن دارقطنی ” (2/274) ، ” تنقیح التحقیق” (1/343) از: ذہبی ، اور “تلخیص الحبیر” (2/764) از: حافظ ابن حجر۔
ب:عطاء رحمہ اللہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں: “میں سونے کا زیور پہنتی تھی ، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یہ بھی “کنز ہے؟” تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو زکاۃ کے نصاب کو پہنچ جائے اور اس کی زکاۃ ادا کر دو تو وہ “کنز” نہیں رہتا)”
ابو داود: (1564) اس کی سند کے راوی تمام ثقہ ہیں، لیکن عطاء بن ابی رباح کا علی بن مدینی کے مطابق ام سلمہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
لیکن اس کے با وجود اس حدیث کو ابن قطان نے صحیح کہا ہے، اور حافظ عراقی نے اس کی سند کو جید کہا ہے، ان دونوں کے اقوال حافظ ابن حجر نے ” فتح الباری” (3/272) میں نقل کیے ہیں، لیکن البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔
حدیث کے عربی الفاظ میں “اوضاح” کا لفظ چاندی کے زیور پر بولا جاتا تھا کہ یہ بالکل واضح سفید ہوتے ہیں لیکن بعد میں سونے کے زیورات پر بھی اسے بولا جانے لگا۔
ج: عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور شعیب اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ : “ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی بیٹی کیساتھ آئی اور اس کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے کڑے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: (کیا تم اس کی زکاۃ دیتی ہو؟)
خاتون نے کہا: نہیں!
آپ نے فرمایا: (کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ اللہ تعالی ان دو کڑوں کے بدلے میں آگے کے کڑے پہنائے؟)
راوی کا کہنا ہے کہ: اس عورت سے ان کڑوں کو اتار کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا، اور کہنے لگی: “یہ اللہ اور اس کے رسول کیلئے ہیں”
اس حدیث کو ابو داود: (1563) نسائی: (2479) نے روایت کیا ہے، اس حدیث کو ابن قطان، زیلعی اور ابن ملقن نے صحیح قرار دیا ہے جبکہ نووی اور البانی نے اسے حسن کہا ہے۔
لیکن ترمذی، نسائی ، ابن حبان، بیہقی، ابن حزم، ابن جوزی، اور ابن کثیر نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
صحابہ کرام میں سے زیورات پر زکاۃ کی فرضیت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، چنانچہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک عورت سے زیورات سے متعلق سوال کیا : “کیا زیورات میں زکاۃ ہے؟”
تو آپ نے کہا: “زیورات میں اگر دو سو درہم [چاندی کے نصاب] کے برابر ہوں تو اس کی زکاۃ دو”
تو خاتون نے پوچھا: “میں کچھ یتیموں کو پال رہی ہوں تو کیا میں انہیں زکاۃ دے سکتی ہوں؟”
تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: “جی !دے سکتی ہو” انتہی
” مصنف عبد الرزاق صنعانی” (4/ 83)
چہارم:
جمہور مالکی، شافعی اور حنبلی فقہائے کرام “سونے یا چاندی کے ذاتی استعمال کیلئے تیار شدہ جائز زیور” کے بارے میں زکاۃ واجب ہونے کے قائل نہیں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ:
سونے چاندی پر زکاۃ واجب ہونے کے عام دلائل زیورات پر صادق نہیں آتے، کیونکہ احادیث میں مذکور لفظ “رقہ”[چاندی] یا “اواقی” [چاندی کی مخصوص مقدار] زیورات پر نہیں بولے جاتے، بلکہ سونے [چاندی]کے سکوں پر بولے جاتے ہیں۔
چنانچہ ابو عبید کہتے ہیں:
“ہمارے علم کے مطابق یہ دونوں الفاظ عرب کے کلام میں لوگوں میں مروّجہ سکوں پر ہی بولے جاتے ہیں ، اور لفظ “اواقی” درہموں پر بولا جاتا ہے، چنانچہ چالیس درہموں کو “اوقیہ” کہتے ہیں” انتہی
” الأموال ” (ص: 543)
اسی طرح ابن خزیمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“عربی زبان میں لفظ “وَرِق” ان اہل عرب کی زبان میں جن کی زبان میں وحی نازل ہوئی ہے ، ایسے زیورات پر نہیں بولا جاتا جسے ذاتی استعمال کیلئے بنایا جاتا ہو” انتہی
” صحیح ابن خزیمہ ” (4/34)
اسی طرح شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“زیورات پر زکاۃ واجب ہونے کے متعلق جن احادیث میں ” وَرِق ” اور “رِقّہ” کا لفظ استعمال ہوا ہے انہیں دلیل بنانا درست نہیں ہے، کیونکہ صحاح اور قاموس وغیرہ لغت کی کتابوں میں یہ بات ثابت ہے کہ : ” وَرِق ” اور “رِقّہ” ڈھلائی شدہ سکوں کو کہتے ہیں، چنانچہ زیورات پر زکاۃ کی فرضیت کیلئے ان الفاظ کو دلیل بنانا درست نہیں ہے، بلکہ اپنے مفہوم مخالف کے باعث اس بات کی دلیل ہیں کہ زیورات میں زکاۃ واجب نہیں ہوگی” انتہی
” السيل الجرار ” (ص: 233)
اسی طرح آیت میں مذکور “کنز” کا لفظ بھی ذاتی استعمال کے زیورات پر استعمال نہیں ہوتا، کیونکہ آیت میں لفظ “وَلَا يُنفِقُونَهَا “اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس سے مراد ایسا کنز ہے جو بطور مالیت و قیمت خرچ کیا جا سکے، اور یہ صرف سکوں میں ہی ہو سکتا ہے، نا کہ ذاتی استعمال کے زیورات میں۔
جبکہ زیورات پر زکاۃ واجب ہونے سے متعلق احادیث کے بارے میں انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ یہ تمام احادیث ضعیف ہیں۔
چنانچہ ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“زیورات میں زکاۃ فرض ہونے سے متعلق کوئی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے” انتہی
” جامع ترمذی ” (3/29)
اور اسی طرح بدر الدین موصلی کہتے ہیں
” اس مسئلے سے متعلق کوئی حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے ” انتہی
” المغنی عن الحفظ والكتاب ” صفحہ: 313
اور اسی طرح ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہ تمام احادیث ضعیف ہیں” انتہی
” التحقیق” (3/71)
جبکہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس مسئلے سے متعلق دو طرفہ احادیث موجود ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتی” انتہی
“مجموع رسائل ابن رجب” (2/708)
شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“چنانچہ اس مسئلے سے متعلق کوئی حدیث بھی قابل حجت نہیں رہتی۔۔۔ اور صحابہ کرام اور ان کے اہل خانہ کے پاس زیورات موجود تھے، لیکن ایسی کوئی حدیث ثابت نہیں ہے کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں زکاۃ دینے کا حکم دیا ہو” انتہی
” السيل الجرار ” (ص: 233)
شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ کہتے ہیں:
“جن لوگوں نے سونے یا چاندی کے ذاتی استعمال کیلئے تیار شدہ جائز زیور پر زکاۃ واجب قرار دی ہے ان کے مرفوع احادیث پر مشتمل کچھ صریح دلائل ہیں، جن میں سونے کے دو موٹے کڑوں والی حدیث، عائشہ رضی اللہ عنہا کی چاندی سے بنی انگوٹھیوں والی حدیث ، اور ام سلمہ کی سونے کے زیور والی حدیث شامل ہے۔۔۔ ان تمام احادیث کے بارے میں امام شافعی، احمد بن حنبل، ابو عبید، نسائی ، ترمذی، دارقطنی، بیہقی، اور ابن حزم کی گفتگو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان احادیث کے صحیح ثابت نہ ہونے کی وجہ سے ان میں قوت نہیں ہے، اور یہ بھی یقینی امر ہے کہ ان اہل علم کی رائے کو ان متاخرین کی رائے پر فوقیت دی جائے گی جنہوں نے ان احادیث کو قوی سمجھنے کی کوشش کی ہے” انتہی
” فتاوى ورسائل سماحۃ الشیخ محمد بن إبراہیم آل الشیخ ” (4/97)
اور جن اہل علم نے ان روایات کو صحیح قرار دینے کی کوشش کی ہے انہوں نے اس کے معنی و مفہوم کی ایسی توجیہ پیش کی ہے کہ ظاہری مطلب تبدیل ہو جائے، چنانچہ اس بارے میں بھی بہت سی آراء ہیں، لیکن تمام کی تمام کمزور اور تکلف سے بھر پور ہیں۔
چنانچہ ان توجیہات میں یہ کہا گیا ہے کہ:
“یہ اس وقت کی بات ہے جب خواتین پر سونا پہننا حرام تھا”
اگر یہ بات درست ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں زکاۃ کا حکم دینے سے پہلے پہننے سے ہی منع کر دیتے ۔
اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے:
“یہاں زکاۃ سے مراد نفلی صدقہ ہے، فرض زکاۃ مراد نہیں ہے، یا پھر زکاۃ سے مراد یہ ہے کہ انہیں عاریۃً پہننے کیلئے دینا چاہیے”
لیکن یہ بھی بعید از قرائن ہے، کیونکہ حدیث میں شدید قسم کی وعید ہے اور اتنی سخت وعید کسی مستحب کام کے ترک پر نہیں دی جا سکتی۔
دوسری طرف جمہور اہل علم نے اپنے موقف کی تائید کیلئے ان صحابہ کرام کے آثار سے بھی مدد لی ہے، جو زیورات پر زکاۃ فرض نہیں سمجھتے۔
چنانچہ اثرم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“میں نے ابو عبد اللہ احمد بن حنبل سے سنا وہ کہہ رہے تھے: پانچ صحابہ کرام سے یہ مروی ہے کہ زیورات میں زکاۃ نہیں ہے، اور وہ ہیں: انس، جابر، ابن عمر، عائشہ، اور اسماء رضی اللہ عنہم جمیعا”
اس اثر کو ابن عبد الہادی نے ” التنقيح ” (2/1421) میں نقل کیا ہے۔
ابن حزم کہتے ہیں:
“جابر بن عبد اللہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ زیورات میں زکاۃ نہیں ہے، اور یہی موقف اسماء بنت ابی بکر صدیق کا ہے اور عائشہ رضی اللہ عنہما سے بھی یہی بات منقول ہے، اور ان دونوں سے صحیح ثابت بھی ہے” انتہی
” المحلى بالآثار ” (4/ 185)
اور مؤطا : (584) میں عبد الرحمن بن قاسم اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے بھائی کی یتیم بچیوں کی کفالت کرتی تھیں، ان کا کچھ زیور بھی تھا لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا اس کی زکاۃ ادا نہیں کرتی تھیں۔
شیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے زکاۃ ادا نہ کرنے پر سخت وعید بھی معلوم ہو کہ جہنم میں جانے کیلئے زکاۃ ادا نہ کرنا ہی کافی ہے، اور پھر بھی آپ اپنی زیر کفالت بچیوں کی زکاۃ ادا نہ کریں؟ مزید یہ بھی ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ موقف مشہور ہے کہ یتیم بچوں کے مال میں بھی زکاۃ ہوگی” انتہی
” أضواء البيان ” (2/126)
اسی طرح مالک نے موطا: (485) میں نافع سے بیان کیا ہے کہ :
“عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے بیٹیوں اور لونڈیوں کو سونے کے زیورات پہناتے تھے، اور ان کے زیورات سے زکاۃ ادا نہیں کرتے تھے”
اسی طرح عمرو بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“میں نے جابر بن عبد اللہ سے زیورات میں زکاۃ سے متعلق پوچھا کیا ان میں زکاۃ ہے؟
تو انہوں نے کہا: نہیں۔
میں نے کہا: اگر ایک ہزار دینار کے برابر ہو؟
تو انہوں نے کہا: ایک ہزار دینار تو بہت زیادہ ہیں” انتہی
” مصنف عبد الرزاق ” (4/82)
اسی طرح علی بن سلیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“میں نے انس بن مالک سے زیورات کے بارے میں پوچھا کیا اس میں زکاۃ ہے؟” تو انہوں نے کہا: “نہیں ہے” انتہی
” الأموال ” از: ابن زنجویہ (3/ 979)
فاطمہ بنت منذر سے مروی ہے کہ : “اسماء زیورات کی زکاۃ نہیں دیا کرتی تھیں، اور ان کی بیٹیوں کا زیور تقریباً پچاس ہزار [کے برابر]تھا”
” الأموال ” از: ابن زنجویہ (3/ 979)
اسی طرح یحیی بن سعید کہتے ہیں :
“میں نے عمرہ بنت عبد الرحمن سے زیورات کی زکاۃ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: “میں نے کسی کو زیورات کی زکاۃ ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا، اور میرا ایک ہار تھا جس کی قیمت 1200 ہوگی میں نے کبھی اس کی زکاۃ نہیں دی” انتہی
” الأموال ” از: ابن زنجویہ (3/ 979) اور ” مصنف ابن ابی شیبہ” (2/ 383)
اور ایسے ہی حسن کہتے ہیں:
“ہمارے علم کے مطابق کسی بھی خلیفہ راشد نے یہ نہیں کہا کہ زیورات میں زکاۃ واجب ہے”
” مصنف ابن ابی شیبہ” (2/ 383)
بلکہ الباجی رحمہ اللہ نے زیورات پر زکاۃ نہ ہونے کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ:
“یہی موقف تمام صحابہ کرام میں مشہور و معروف تھا” انتہی
” المنتقى شرح الموطأ ” (2/ 107)
جبکہ زیورات میں زکاۃ فرض ہونے کا موقف صحابہ کرام میں سے صرف ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔
چنانچہ ابو عبید کہتے ہیں:
“ہمارے ہاں زیورات پر زکاۃ سے متعلق صحابہ کرام میں سے صرف ابن مسعود اس کے قائل ہیں” انتہی
” الأموال ” از: قاسم بن سلام (صفحہ: 544)
اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ :
“زکاۃ کیلئے اصول یہ ہے کہ ہر ایسی چیز جو ذاتی استعمال کیلئے ہو اس میں زکاۃ نہیں ہے”
چنانچہ ہر ایسا مال جس پر حقیقت میں زکاۃ لاگو ہوتی ہو لیکن جب اسے ذاتی استعمال کیلئے رکھا جائے تو پھر اس میں زکاۃ نہیں ہے، مثال کے طور پر : کام کاج کیلئے رکھے ہوئے اونٹ اور بیل وغیرہ، ان میں زکاۃ واجب نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب انہیں ذاتی استعمال کیلئے رکھا گیا تو یہ زکاۃ والے مال سے نکل کر غیر زکاۃ والے مال میں شامل ہوگئے۔
اور ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“سونے چاندی کی دو قسمیں ہیں:
1-ایسا سونا چاندی جسے قیمت ادا کرنے کیلئے ، یا تجارت کیلئے یا منافع کمانے کیلئے رکھا گیا ہو تو اس میں زکاۃ ہوگی، جیسے کہ سکوں اور خالص سونے چاندی میں ہوتی ہے۔
2-ایسا سونا چاندی جسے نفع یا تجارت کیلئے نہیں رکھا گیا ، مثال کے طور پر عورت کا زیور، اور اسلحہ اور اوزاروں میں ایسے انداز سے استعمال ہونے والا سونا یا چاندی جسے شریعت کی رو سے اجازت ملتی ہے تو اس میں بھی زکاۃ نہیں ہے”
” إعلام الموقعين ” (2/70) کچھ کمی بیشی کیساتھ اقتباس مکمل ہوا۔
خلاصہ یہ ہوا کہ:
اس مسئلے کے بارے میں اختلاف بہت قوی ہے، اور ہر موقف کی دلیل اور قابل اعتماد حجت بھی ہے۔
لیکن پھر بھی زکاۃ ادا کر دینا ہی محتاط اور بری الذمہ ہونے کیلئے بہتر معلوم ہوتا ہے۔
چنانچہ خطابی کہتے ہیں:
“احتیاط اسی میں ہے کہ زکاۃ ادا کر دی جائے” انتہی
” معالم السنن ” (2/ 17)
اسی طرح شیخ محمد امین شنقیطی کہتے ہیں:
“زیورات کی زکاۃ ادا کرنا ہی محتاط ہے؛ کیونکہ جو شخص شبہات سے بچے تو وہ اپنے دین اور آبرو کو محفوظ بنا لیتا ہے، اور شبہ والی چیز کو چھوڑ کر یقینی چیز کو اپنانا چاہیے، باقی کامل علم تو صرف اللہ تعالی کی ذات کے پاس ہے”
” أضواء البيان ” (2/134)
ہماری ویب سائٹ پر پہلے بھی شیخ ابن باز، ابن عثیمین اور دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی جات بیان کیے جا چکے ہیں اس کیلئے آپ سوال نمبر: (59866) اور (19901) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب
متعلقہ جوابات