ہم نماز کے رکوع اور سجدہ میں کہتے ہیں: " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمُ " اور " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى" کیا ان الفاظ کو کہتے ہوئے اس عبارت کا مفہوم ذہن میں حاضر رکھنا ضروری ہوتا ہے یا رکوع میں اللہ تعالی کے کمال اور سجدے کی حالت میں اللہ تعالی کی عظمت و بلندی کے بارے میں غور و فکر کرنا ضروری ہے؟
نماز کے الفاظ اور افعال کا معنی اور مفہوم ذہن میں اجاگر رکھنا
سوال: 220933
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول:
تسبیح کا معنی ہے کہ اللہ تعالی ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک ہے، چنانچہ جب آپ کہتے ہیں: "سُبْحَانَ الله " تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ : یا اللہ میں آپ کو ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک صاف اور مبرّا مانتا ہوں۔
تسبیح کا تفصیلی معنی سوال نمبر: (170072 ) کے جواب میں گزر چکا ہے۔
اور " الْعَظِيْمُ" کا معنی ہے بہت بڑی عظمت والا، جبکہ "الْأَعْلَى " کا مطلب ہے جس کی ذات اعلی ہے اور اس کی صفات بھی بہت اعلی ہیں۔
دوم:
نمازی کیلیے یہ بات لازمی ہے کہ وہ قرآن مجید یا کوئی بھی دعا وغیرہ نماز میں پڑھے تو اس کے معنی و مفہوم پر ضرور غور و فکر کرے؛ کیونکہ نماز کے ایک ایک لفظ اور کلمے میں ایسے ایسے موتی اور جواہر پوشیدہ ہیں، جن سے نمازی کی دو جہاں کی سعادت ہے اور یہ سعادت اس قدر حاصل ہو گی جتنا دل و دماغ میں ان کلمات کا معنی و مفہوم اپنا اثر دکھائے گا، اور جس قدر دل و دماغ میں ان کلمات کے معانی و مفاہیم کم ہو ں گے خشوع و خضوع بھی اتنا ہی کم ہو گا۔
نماز میں پڑھی جانے والی دعاؤں اور آیات و سورتوں کے معانی و مفاہیم ہی ذہن میں اجاگر کرنا ضروری نہیں بلکہ نماز کےارکان اور حرکات و سکنات کے معانی کا بھی ذہن میں حاضر رکھنا ضروری ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دورانِ نماز ذہن کو اِدھر اُدھر جانے سے بچانے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ : انسان نماز میں جو کچھ کہہ رہا ہے یا کر رہا ہے اس کے معنی اور مفہوم کو ذہن میں رکھے اور جن مقاصد کیلیے نماز کے افعال اور اقوال شریعت نے نماز میں رکھے ہیں ان پہ غور و فکر کرے، مثلاً: حالتِ رکوع میں یہ غرض و غایت ذہن میں رکھے کہ رکوع اللہ تعالی کی عظمت کا قولی اور فعلی ہر دو اعتبار سے اعتراف ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رکوع میں پروردگار کی عظمت بیان کرو) نیز رکوع کرتے ہوئے اللہ تعالی کیلیے جھک جانا اللہ تعالی کی تعظیم ہے، اسی طرح رکوع کی تسبیح " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمُ" [پاک ہے میرا رب وہ عظمت والا ہے]میں اللہ تعالی کی قولی، فعلی اور قلبی تعظیم ہے" انتہی
ماخوذ از: " فتاوى نور على الدرب " (8/2) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جس وقت رکوع اور سجدہ کر کے انسان اپنے پروردگار کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل اور ہیچ ثابت کر دیتا ہے اور اپنے پروردگار کو جاہ وجلال، کبریا، عظمت اور بلند صفات سے متصف کرتا ہے تو اس کی زبان حال یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ: عاجزی اور انکساری میری صفت ہے، جبکہ بلندی ، عظمت اور کبریائی تیری صفت ہے۔ اسی لیے حالتِ رکوع میں یہ کہنے کی تلقین کی گئی: " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيْمُ " [پاک ہے میرا رب وہ عظمت والا ہے]اور سجدے کی حالت میں " سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى" [پاک ہے میرا رب وہ بلند و بالا ہے]اور بسا اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجدے میں یہ بھی کہا کرتے تھے: سُبْحَانَ ذِيْ الْجَبَرُوْتِ وَالْمَلَكُوْتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ [پاک ہے وہ ذات جو بادشاہی، جبروت، کبریا اور عظمت والی ہے]"انتہی
مختصراً ماخوذ : " الخشوع في الصلاة " (ص41-43)
سائل نے اپنے سوال میں پوچھا ہے کہ:
" کیا ان الفاظ کو کہتے ہوئے اس عبارت کا مفہوم ذہن میں اجاگر رکھنا ضروری ہوتا ہے یا رکوع میں اللہ تعالی کے کمال پر اور سجدے کی حالت میں اللہ تعالی کی عظمت و بلندی کے بارے میں غور و فکر کرنا ضروری ہے؟"
تو اس کا جواب یہ ہے کہ :
ہر نمازی سے مطلوب یہی ہے کہ نمازی نماز پڑھتے ہوئے جو کچھ بھی کہتا ہے یا کرتا ہے اس کے معنی ، مفہوم، اور مقاصد پر غور و فکر کرے، چنانچہ رکوع اور سجود اللہ تعالی کی عظمت بیان کرنے کیلیے نماز کا حصہ بنائے گئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رکوع اور سجدے میں کہے جانے والے شرعی الفاظ بھی اللہ تعالی کی عظمت اور جلالت بیان کرتے ہیں؛ لہذا رکوع اور سجدے میں کہے جانے والے الفاظ پر اگر کوئی شخص غور و فکر کرے تو ان کا معنی اور مفہوم اللہ تعالی کی عظمت کی جانب انسان کو لازمی طور پر لے جائے گا، تاہم یہ غور و فکر اتنا ہی ہو جتنا نماز میں کسی ذکر کو اپنی زبان پر لا رہا ہے یا کوئی عمل کر رہا ہے، اس سے آگے مت جائے؛ کیونکہ یہ چیز شیطانی وسوسوں کا باعث بھی بن سکتی ہے اور انسان کی توجہ نماز سے ہٹ سکتی ہے۔
غزالی رحمہ اللہ " إحیاء علوم الدین " (1/150) میں کہتے ہیں:
"یہ بات واضح رہے کہ شیطان کا ایک ہتھکنڈا یہ بھی ہے کہ نماز میں انسان کو آخرت کی یاد میں مشغول کر دے اور پھر آپ آخرت کی سختیوں سے بچنے کیلیے نیکیاں کرنے کی منصوبہ بندی نماز میں ہی شروع کر دے اس طرح آپ نماز میں جو کچھ کہہ رہے ہیں اسے سمجھ نہیں پائیں گے، لہذا یہ بات ذہن نشین کر لو کہ جو کام بھی آپ کو نماز کے دوران کی جانے والی تلاوت اور اذکار کے مفہوم سے دور کرے وہ وسوسہ ہی ہے"انتہی
واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب