0 / 0
12,39426/03/2004

لڑکی نے والد کی رضامندی کے بغیر شادی کرلی

سوال: 20213

میری بہن نے ایک اچھے مسلمان شخص سے شادی کرلی لیکن اس میں والد کی رضامندی شامل نہیں تھی ، میرے والد – جوکہ دین والے ہیں – نے اس شخص سے شادی کرنے سے اس لیے انکار کیا تھا کہ اس کا اخلاق اچھا نہیں تھا ، جس کی وجہ سے میری بہن نے گھر سے بھاگ کر بغیر ولی کے خود ہی شادی کرلی ، میرا سوال یہ ہے کہ آيا یہ شادی صحیح ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

الحمدللہ

آپ کے والد نے اس برے اخلاق کے مالک سے شادی پر راضی نہ ہوکر ایک اچھا عمل کیا ہے ، کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کے والد کو بیٹیوں اوراپنے اہل وعیال پر ذمہ دار مقرر کیا ہے ، جس کی بنا پر اس پر واجب ہے کہ وہ شرعی طور پر ان کے لیے کوئی اچھا اوربہتر خاوند اختیار کرے ۔

لیکن آپ کی بہن نے ایک کی بجائے کئي ایک غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے جن میں سے کچھ کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :

ایک غلطی تو یہ ہے کہ اس نے برے اخلاق کے مالک شخص کو اپنا خاوند بنایا ۔

دوسری غلطی یہ ہے کہ اپنے والدین کے گھر سے بھاگ نکلی جو بڑی خطرناک غلطی ہے ۔

اورسب سے زيادہ خطرناک اورعظیم غلطی یہ ہے کہ اس سے ولی کے بغیر شادی رچا لی ۔

اس نے جو کچھ اپنے رب اوراپنے آپ اورگھر والوں کے بارہ میں جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کی حد جاننے کے لیے ان سب غلطیوں میں سے صرف ایک ہی غلطی کافی تھی ، اورجب یہ سب غلطیاں جمع ہوجائيں تو پھر کتنا بڑا شنیع جرم ہوگا ؟

اس شادی کے بارہ میں ہم گزارش کریں گے کہ ایسی شادی باطل ہے اورصحیح نہیں ، کیونکہ شادی میں لڑکی کے ولی کی موجودگی اوراس کی رضامندی رکن ہے اورولی کے ساتھ ہی شادی صحیح ہوگي ۔

ذیل میں ہم قرآن وسنت میں سے اس کے دلائل پیش کرتے ہیں :

1 – اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

تم انہیں ان کے خاوندوں سے نکاح کرنے سے منع نہ کرو البقرۃ ( 232 )

2 – اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

اورمشرکوں سے اس وقت تک شادی نہ کرو جب تک وہ ایمان نہيں لے آتے البقرۃ ( 221 )۔

3 – اورایک مقام پر یہ فرمایا :

اوراپنے میں سے بے نکاح مرد و عورت کا نکاح کردو النور ( 32 )

ان آیات میں نکاح میں ولی کی شرط بیان ہوئي ہے اوراس کی وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان سب آیات میں عورت کے ولی کو عقدنکاح کے بارہ میں مخاطب کیا ہے اوراگر معاملہ ولی کا نہیں بلکہ صرف عورت کے لیے ہوتا تو پھر اس کے ولی کو مخاطب کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی فقہ ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح بخاری میں ان آیات پر یہ کہتے ہوئے باب باندھا ہے ( باب من قال ) ” لانکاح الا بولی ” بغیر ولی کے نکاح نہیں ہونے کے قول کے بارہ میں باب ۔

احاديث میں سے دلائل :

1 – ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 1101 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2085 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر( 1881 ) ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 1 / 318 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

2 – اورام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جوعورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اوراگر ( خاوندنے ) اس سے دخول کرلیا تو اس سے نفع حاصل اوراستمتاع کرنے کی وجہ سے اسے مہر دینا ہوگا ، اوراگر وہ آپس میں جھگڑا کریں اور جس کاولی نہیں حکمران اس کی ولی ہوگا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1102 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2083 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1879 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن قراردیا ہے ، اورابن حبان رحمہ اللہ نے صحیح ابن حبان ( 9 / 384 ) میں صحیح کہا ہے اورامام حاکم رحمہ اللہ نے بھی مستدرک الحاکم ( 2 / 183 ) میں صحیح قراردیا ہے اوراسی طرح علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 1840 ) میں اسے صحیح قرار دیاہے ۔

اس لیے آپ کی بہن پرواجب اورضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی سے اپنے کیے کی معافی مانگے اورتوبہ و استغفارکرے ، اوراپنے والد کے پاس واپس آئے اوراس سے بھی معافی طلب کرے ، اوراسے یہ علم ہونا چاہیے کہ اس کا یہ نکاح باطل ہے اورعقد فسخ ہے جس کی بنا پر اس کا اس شخص کے ساتھ رہنا جائز نہیں کیونکہ وہ اس کا شرعی طور پر خاوند ہی نہیں ہے ۔

کیونکہ جب نکاح ہی صحیح نہیں تو خاوند کیسے ؟ اب یا تو اسے ولی کی رضامندی اورموجودگی میں تجدید نکاح کرانا ہوگا ، اگر ولی مقارنہ اورموازنہ کرکے دیکھے کہ اس کے سوء خلق کے فساد اوراس کے علیحدگی میں کیا خرابی لاحق ہوگی اسے دیکھتے ہوئے اگر وہ ان کے استقرار پر راضي ہوتا ہے تو پھر ولی کی موجودگی میں تجدید نکاح ہو ۔

اوراگر ولی ان دونوں کے استقرار اوراکٹھے رہنے میں راضی نہیں توپھر ان کا یہ عقد نکاح خود بخود ہی فسخ ہوجائے گا ، اوراس شبہ کوختم کرنے کےلیے کہ کہیں ان کا آپس میں باطل نکاح باقی نہ رہے اس شخص کو طلاق دینی لازم ہوگی ۔

اوربیٹی پر یہ واجب ہے کہ وہ اپنے والد کے اختیار کردہ رشتہ پر راضي ہو اوروالد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کے سعادت کےلیے کوئي اچھا اوردین والا رشتہ تلاش کرے جو اللہ تعالی کا ڈر اورخوف رکھنے والا اوراچھے اخلاق کا مالک ہو ۔

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android