0 / 0
11,51126/05/2009

قسطوں پر گاڑي خريدنا

سوال: 20091

كيا امريكہ ميں قسطوں پر گاڑي حاصل كرنا حرام ہے؟ مجھےعلم نہيں كہ معاہدہ ميں كسي بھي قسم كا سود ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

كسي چيز پر حكم اس كي صورت سامنےآنےپر ہي لگايا جاسكتا ہے، اس ليے اس بيع پر جواز يا حرمت كاحكم لگانا اس وقت تك ممكن نہيں جب تك اس كي صورت اور معاہدہ كي شروط اور اس كي صورت سامنے نہ آئے.

اس وقت قسطوں ميں بيع كي دوصورتيں معروف ہيں اور عام پھيلي ہوئي ہيں:

پہلي صورت :

گاڑي اس سےخريدي جائےجواس كي ملكيت ميں ہو، چاہے وہ مالك كوئي شخص ہو يا پھر كوئي كمپني، اور اس كي قيمت قسطوں ميں ادا كي جائے، اس ميں كوئي حرج نہيں چاہے قسطوں ميں خريدي گئي چيز كي قيمت نقدقيمت سے زيادہ ہي كيوں نہ ہو. اس كي مزيد تفصيل كےليے سوال نمبر ( 13973 ) .

دوسري صورت:

يہ گاڑي كسي شخص يا كسي اور سے خريدي جائے جس كےقبضہ اور ملكيت ميں يہ گاڑي نہ ہو، بلكہ وہ گاڑي كےمالك كوآپ كي جانب سے گاڑي كي قيمت ادا كرے، اس شرط پر كہ آپ اسے ادا كردہ مبلغ سےزيادہ رقم قسطوں ميں ادا كريں گے، تويہ حرام ہے اس ليے كہ اس معاہدے كي اصل حقيقت يہ ہے كہ اس ( بنك وغيرہ ) نے آپ كو فائدے كےساتھ سودي قرض مہيا كيا ہے، اور ايسي كوئي چيز نہيں خريدي جو اس كي ضمانت ميں داخل ہواور وہ اس كا قبضہ كركےاپني ملكيت ميں لے تا كہ اس كےليےوہ چيز آپ كوفروخت كرنا صحيح ہوسكے.

اس كي مزيد تفصيل كےليےآپ سوال نمبر ( 10958 ) كےجواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اوراس بنا پر اگر فرض كريں بنك حقيقتا گاڑي خريد كر اپنے قبضہ ميں كرے اور پھر آپ كو زيادہ قيمت پرقسطوں ميں فروخت كرے تو اس ميں كوئي حرج نہيں، اوريہ پہلي صورت ميں داخل ہوگا.

مستقل فتوي كميٹي سعودي عرب سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ايك انسان نے اپنے دوست سے كہا كہ وہ نقدوں ميں گاڑي خريد كر اسے قسطوں ميں نفع كےساتھ فروخت كردے، تو كيا يہ سود شمار ہوگا؟

كميٹي كا جواب تھا:

جس كوئي انسان كسي دوسرے شخص سے كوئي معين يا خاص اوصاف كي حامل كي گاڑي خريدنے كا كہےاور وہ اس سے وعدہ كرے كہ آپ سے يہ گاڑي ميں خريد لوں گا، لھذا اس شخص نے وہ گاڑي خريد لي اور اپنے قبضہ ميں لے لي، تو جس نے اس سے گاڑي خريدنے كا مطالبہ كيا تھا وہ اس سے يہ گاڑي نقد يا قسطوں ميں معلوم منافع كےساتھ خريد سكتا ہے، اور اسے اس چيز كي فروخت جواس كےملكيت ميں نہ ہو شمار نہيں كرينگے، اس ليے كہ جس سے سامان كا مطالبہ كيا گيا تھا اس نے تو چيز طلب كرنے والے كووہ چيز خريد كر اپنے قبضہ ميں كرنے كےبعد فروخت كي ہے، اس يہ حق نہيں كہ مثلا يہ گاڑي خريدنے يا پھر خريد كر اپنےقبضہ ميں كرنے سےقبل ہي دوست كو فروخت كردے، كيونكہ ايسا كرنے سے نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہےكہ چيز خريد كرقبضہ ميں كرنےاور تاجراپنےگھروں ميں لےجانےسےقبل اسي جگہ فروخت كرديں. انتھي.

ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 152 )

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android