0 / 0
8,20110/03/2014

كنوارى لڑكى يا يتيم بچوں كى ماں سے شادى كرنا

سوال: 175870

ميرى شادى ہونے والى ہے، كنوارى لڑكى سے بھى شادى كرنا ممكن ہے، اور ايك شہيد كى بيوہ جس كے تين يتيم بچے بھى ہيں سے بھى شادى ممكن ہے، ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ اگر شہيد كى بيوہ سے شادى كرنے كا اجروثواب اور كوئى فضيلت ہے تو پھر بيوہ سے شادى كروں.

اور آيا اس سلسلہ ميں ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم سے كوئى حديث مروى ہے، برائے مہربانى اس سلسلہ ميں مجھے مشورہ ديں كہ آيا كنوارى لڑكى سے شادى كروں يا شہيد كى بيوہ سے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

كسى بھى مسلمان كے لائق اور شايان شان نہيں كہ وہ كسى معين شخص كے بارہ ميں گواہى دے كہ وہ اللہ كى راہ ميں شہيد ہوا ہے، ليكن ہميں اس كى اميد ركھنى چاہيے، بلكہ عمومى طور پر ہم يہ گواہى ديتے ہيں كہ اللہ كى راہ ميں جو بھى قتل ہوا وہ شہيد ہے، ليكن كسى مخصوص شخص كے متعلق كہنا نہيں چاہيے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” ہم كسى معين شخص كے ليے شہيد ہونے كى گواہى نہيں ديں گے چاہے وہ معركہ ميں ہى قتل ہوا ہو، امام بخارى رحمہ اللہ نے اس مسئلہ كے متعلق صحيح بخارى ميں باب مقرر كرتے ہوئے كہا ہے:

” باب لا يقال فلان شہيد ” كسى شخص كے بارہ ميں يہ نہيں كہا جائيگا كہ فلاں شہيد ہے، انہوں نے صحيح حديث سے استدلال كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” جس شخص كو بھى اللہ كى راہ ميں كوئى زخم آيا حالانكہ اللہ كو ہى علم ہے كہ اس كى راہ ميں كسے زخم آيا ہے، تو وہ شخص روز قيامت اس كے زخم سے خون رس رہا ہوگا، اس كا رنگ تو خون جيسا ہوگا، ليكن خوشبو كستورى كى ہو گى ”

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمانا كہ: ” اللہ كو ہى علم ہے كہ كون اللہ كى راہ ميں زخمى ہوا ہے ” يہ نيت كى طرف اشارہ ہے، يعنى زخمى ہونے والے كى نيت كا اعتبار كيا جائيگا، اور ہميں اس مقتول كى نيت كا علم ہى نہيں، بلكہ ہم اس كے كفن دفن اور غسل اور نماز جنازہ وغيرہ ميں اس كے ظاہر كے مطابق معاملہ كريں گے.

ليكن باطن ميں يہ حكم نہيں لگائيں گے كہ وہ شہيد اور جنتى ہے، بلكہ اسے شہداء ميں شامل ہونے كى اميد ركھيں گے ” انتہى

ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 21 / 202 ).

دوم:

خاص كر شہيد شخص كى بيوہ سے شادى كرنے كے متعلق شريعت ميں كسى فضيلت كا ہميں علم نہيں، يا پھر خاص كر كسى شہيد كے يتيم بچوں كى كفالت كى فضيلت كے متعلق بھى كوئى علم نہيں ركھتے، ليكن عموما يتيم كى كفالت كى فضيلت تو وارد ہے، مگر اتنا ہے كہ اگر كوئى شخص اجر و ثواب كى نيت سے ايسا كرے تو بلاشك اسے اللہ كے ہاں اجروثواب ضرور حاصل ہوگا، خاص كر جب اس بيوہ كے يتيم بچے بھى ہوں.

امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

” اپنے قريبى رشتہ دار يا اجنبى كے يتيم بچوں كى كفالت كرنے والا اور ميں جنت ميں اس طرح ہونگے ”

مالك رحمہ اللہ نے اپنى انگشت شہادت اور درميانى انگلى كے ساتھ اشارہ كيا.

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2983 ) صحيح بخارى حديث نمبر ( 5304 ) ميں بھى سھل بن سعد رضى اللہ تعالى عنہ سے اسى طرح مروى ہے.

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” لہ او لغيرہ ” اس قريبى رشتہ دار يا كوئى اجنبى سے مراد يہ ہے كہ اس كا قريبى ہو يعنى دادا يا نانا يا ماں اور نانى بھائى يا بہن يا چچا اور خالہ اور پھوپھى اور ماموں وغيرہ كى اولاد، اور يا پھر كسى اجنبى جو اس كا رشتہ دار نہ ہو كى اولاد ” انتہى

ہميں اميد ہے كہ شہيد كے بچوں كى كفالت اور ان كى ديكھ بھال كرنے والے كو زيادہ اجروثواب حاصل ہوگا، اور اس ميں زيادہ فضيلت ہے؛ كيونكہ شہيد كو بھى اللہ كے ہاں بہت مقام و مرتبہ حاصل ہے، اور پھر اس ميں جھاد فى سبيل اللہ كى ترغيب پائى جاتى ہے.

سوم:

بلاشك و شبہ نفس كا ميلان تو كنوارى لڑكى سے ہى شادى كى طرف ہوتا ہے، اور اس ميں شرعا نہ تو ممانعت ہے اور نہ ہى بے رغبتى كرنے كى ترغيب دى گئى ہے، بلكہ شريعت بھى اس فطرى ميلان كے ساتھ ہے.

ليكن اتنا ہے كہ اگر پہلے سے شادى شدہ يعنى مطلقہ يا بيوں عورت سے شادى ميں كوئى راجح مصلحت پائى جائے تو پھر كنوارى سے شادى نہ كى جائے، بلكہ كنوارى پر شادى شدہ كو فضيلت دى جائيگى.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (27173 ) اور ( 9126 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

اس ليے آپ اپنے متعلق زيادہ جانتے ہيں كہ آپ كے ليے كس عورت سے شادى كرنے ميں مصلحت پائى جاتى ہے، اگر آپ سمجھتے ہيں اس بچوں كى بيوہ ماں سے شادى كرنا آپ كے ليے كافى ہے اور آپ كى عفت و عصمت كا باعث ہوگا، اور آپ اس اور اس كے بچوں كى معاملات كو اچھى طرح سرانجام دے سكتے ہيں تو يہ بہت اچھى بات ہے، اميد ہے آپ كو اس ميں بركت حاصل ہوگى، اور اللہ كى مدد بھى شامل حال ہوگى كيونكہ اس ميں اس عورت كى بھى عفت و عصمت پائى جاتى ہے اور اس كے بچوں كى بھى ديكھ بھال ہے، حالانكہ اس طرح كى عورتوں سے شادى كى رغبت بہت كم ہوتى ہے.

اور اگر آپ سمجھتے ہيں كہ آپ كا كنوارى لڑكى كى طرف ميلان ہے اور آپ اپنے نفس كو بيوہ سے شادى كرنے پر مجبور كرتے ہيں تو پھر ہمارى رائے ميں آپ كو ايسا نہيں كرنا چاہيے، بلكہ آپ اپنے آپ كو مباح و مشروع حق حاصل كرنے ديں، اميد ہے اللہ تعالى اس بيوہ اور يتيم بچوں كے ليے كسى اور كو مہيا كر دے اور وہ ان كى كفالت كرنے لگے.

ہم آپ كو اس سلسلہ ميں استخارہ كرنے كى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اچھى طرح اس معاملہ كو سوچ سمجھ كر سرانجام ديں تا كہ آپ بغير كسى دليل اور واضح امر كے يہ معاملہ سرانجام نہ ديں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو خير و بھلائى اور صحيح راہ كى راہنمائى و توفيق نصيب فرمائے اور آپ كو رشد الہام كرے اور نفس كى شر سے محفوظ ركھے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android