ميں نے جبير رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ايك حديث پڑھى ہے جس ميں وارد ہے كہ:
” رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
” جب آپ سفر پر جانے كا ارادہ كريں تو سورۃ الكافرون اور سورۃ النصر اور سورۃ الاخلاص اور سورۃ الفلق اور سورۃ الناس كى تلاوت كريں، ليكن يہ ايك بار ہو جو بسم اللہ سے شروع كى جائے اور بسم اللہ پر ہى ختم كى جائے ”
كيا يہ صحيح ہے، ہميں كتاب و سنت كى روشتى ميں اس كا جواب ديا جائے ؟
سفر سے قبل كوئى معين سورۃ تلاوت كرنا
سوال: 171497
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
سوال ميں بيان كردہ حديث كى نص درج ذيل ہے:
جبير بن مطعم رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:
” اے جبير كيا تم پسند كرتے ہو كہ جب تم سفر پر جاؤ تو اپنے ساتھيوں ميں سب سے بہتر ہئيت ميں ہو اور سب سے زيادہ زاد راہ والے بن جاؤ ؟
ميں نے عرض كيا: ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں جى ہاں ميں پسند كرتا ہوں.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
تم يہ پانچ سورتيں تلاوت كيا كرو قل يا ايھا الكافرون اور اذا جاء نصر اللہ و الفتح اور قل ھو اللہ احد اور قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس.
ہر سورۃ كو بسم اللہ الرحمن الرحيم سے شروع كرو اور اپنى تلاوت كو بسم اللہ الرحمن الرحيم پر ختم كرو.
جبير رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں ميں غنى اور مالدار تھا، اللہ تعالى جس كے ساتھ چاہتا ميں سفر پر نكلتا تو ميں ان ميں سب سے بدحال اور سب سے كم زاد راہ والا ہوتا اور جب سے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے يہ سورتيں پڑھنا سكھائيں اور ميں نے سفر سے قبل پڑھنا شروع كيں تو ميں ان سب ميں اچھى ہيئت و شكل والا اور سب سے زيادہ زاد راہ والا بن جاتا حتى كہ ميں اس سفر سے واپس آتا ”
اسے ابو يعلى نے مسند ابو يعلى ( 13 / 339 ) حديث نمبر ( 7419 ) ميں روايت كيا ہے.
ليكن يہ حديث ضعيف ہے اس ليے كہ اس ميں كئى ايك راوى مجھول ہيں.
اس حديث كے بارہ ميں الھيثمى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
” اس حديث ميں وہ لوگ ہيں جنہيں ميں جانتا تك نہيں ”
ديكھيں: مجمع الزوائد ( 10 / 134 ).
اور علامہ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
يہ حديث منكر ہے ”
ديكھيں: السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ والموضوعۃ حديث نمبر ( 6963 ).
اس بنا پر اس حديث سے استدلال كرنا صحيح نہيں كہ سفر پر جانے سے قبل قرآن مجيد كى كوئى سورۃ پڑھنا مستحب ہے، اور اسى طرح اس سے سورۃ كے شروع ميں بسم اللہ كا استدلال كرنا بھى صحيح نہيں كيونكہ جب حديث ہى صحيح نہيں تو پھر اس سے استدلال كيسے كيا جا سكتا ہے.
مزيد آپ سوال نمبر (149125 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب