0 / 0

عقد نكاح ميں وكيل بنانے ميں كوئى حرج نہيں

سوال: 166212

ہمارے صحرائى معاشرے جنوبى مغرب ميں عقد نكاح كے وقت دولہا حاضر نہيں ہوتا بلكہ دولہا كا ولى دلہن والوں كے ہاں جاتا ہے اور دولہا كى موجودگى كے بغير ہى ايجاب و قبول كيا جاتا ہے؛ كيونكہ ہمارے ہاں عادت اور رواج ہے كہ خاوند اپنے سسر كے سامنے آنے سے شرماتا ہے.

سوال يہ ہے كہ كيا لڑكى كے ولى كا خاوند كے ساتھ موجود ہونا شرط ہے يا كہ نكاح صحيح ہونے كے ليے لڑكى كے ولى اور دولہا كے گھر والوں كے ساتھ ہى ايجاب و قبول كرنےسے نكاح ہو جائيگا ؟

اور كيا دولہا اور دلہن دونوں كا نكاح رجسٹرار اور نكاح خوان كے پاس جانا ضرورى ہے تا كہ نكاح كى توثيق كى جا سكے ؟

جب ميرے گھر والے لڑكى والوں كے پاس سے شادى كى موافقت كے بعد واپس گھر آئے تو ميں اور لڑكى دونوں نے نكاح رجسٹرار كے پاس جا كر ولى كے بغير نكاح فارم پر دستخط كيے، ليكن ہمارا وہاں جانا لڑكى كے ولى كے علم ميں تھا، كيا يہ عقد نكاح صحيح ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

عقد نكاح ميں وكيل بنانا جائز ہے، لہذا اگر كوئى شخص اپنے گھر والوں كو عقد نكاح ميں اپنا وكيل بنائے يا پھر كسى علاقے اور ملك ميں يہ عادت ہو كہ گھر والے اپنے بيٹے كى جانب سے نكاح ميں وكيل بنتے ہوں، اور اس ميں بيٹے كى رضامندى اور علم شامل ہو تو عقد نكاح صحيح ہے، چاہے دولہا عقد نكاح كى مجلس ميں شامل نہ بھى ہو.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” عقد نكاح ميں ايجاب و قبول كے ليے وكيل بنانا جائز ہے كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عمرو بن اميۃ اور ابو رافع كو اپنا نكاح قبول كرنے ميں وكيل بنايا تھا.

اور اس ليے بھى كہ اس كى ضرورت بھى ہے كيونكہ ہو سكتا ہے كسى دوسرے اور دور كے علاقے ميں شادى كى جائے جہاں كا سفر كرنا ممكن نہ ہو، چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ام حبيبہ رضى اللہ تعالى عنہ سے جب شادى كى تو ام حبيبہ حبشہ ميں تھيں ” انتہى

ديكھيں: المغنى ( 5 / 53 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

اگر بيٹا راضى ہو تو كيا باپ اپنے بيٹے كى جانب سے عقد نكاح قبول كر سكتا ہے، اور اسى طرح لڑكى بھى اس پر راضى ہو، اور رضامندى پر دو گواہ بھى ہوں ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

” اگر بالغ بيٹا اپنے باپ كو عقد نكاح ميں وكيل بناتا ہے تو باپ كے ليے اپنے بيٹے كا براہ راست نكاح كرنا جائز ہے، جب اس ميں نكاح كے اركان اور شروط مكمل ہوں اور كوئى مانع نہ پايا جاتا ہو تو نكاح صحيح ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعلى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے ” انتہى

اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء.

الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 176 ).

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android