0 / 0
5,09704/01/2016

شرعی طور پر ذبح کرنے کیلئے محض نیت نا کافی ہے

سوال: 164341

سوال: اگر کوئی شخص کسی گائے کو حلال طریقے سے ذبح کرنا چاہے لیکن گردن پر چھری پھیرنے سے پہلے ہی وہ مر جائے تو کیا گائے حلال ہو جائے گی؟ اور کیا اس گائے کا گوشت کھانا حلال ہوگا؟ مجھے اس وقت بہت تعجب ہوا کہ جب اسلام میں ہر چیز کی بنیاد نیت پر ہے تو اس گائے کو ذبح کرنے والے کی نیت بھی یہی تھی کہ میں گائے کو شرعی طریقے سے حلال کرونگا ، تو کیا اس نیت کی وجہ سے گائے حلال نہیں ہوگی؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

سب سے پہلے سوال میں مذکور نیت کے بارے میں الجھن کو سمجھیں؛ کیونکہ بہت سے لوگ مشہور حدیث: (بیشک اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے، اور ہر شخص کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا) کو غلط سمجھ بیٹھتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی عمل کیلئے نیت کا درست ہونا لازمی ہے، عمل کی کیفیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، حالانکہ حقیقت میں کسی بھی شرعی عمل کیلئے نیت اور عمل کی کیفیت دونوں کا درست ہونا قبولیت کیلئے لازمی ہے:

1-صحیح خالص نیت

2-عمل کے ارکان اور شرائط شریعت کے مطابق پورے کریں۔

چنانچہ اگر کوئی شخص آپ کو مثال کے طور پر ظہر کی نماز پڑھتا ہوا نظر آئے اور رکوع و سجود کے بغیر نماز پڑھے، یا پھر وضو کے بغیر ہی نماز پڑھنا شروع کر دے اور یہ کہتا پھرے کہ : “میری نیت درست ہے، اور میں اللہ کی عبادت کرنا چاہتا ہوں ” تو کیا ہم اس کی نماز کے صحیح ہونے کا حکم لگا دیں گے؟ یا ہم اس کی نماز کو باطل کہیں گے اور اسے نماز کا صحیح طریقہ سکھا کر جہالت کے اندھیرے سے باہر لائیں گے؟!!

یقیناً ہم سب اس کی نماز کو باطل سمجھیں گے، اور اسے یہ بھی واضح کرینگے کہ اعمال کی درستی کیلئے محض نیت کافی نہیں ہے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص کوئی ایسا عمل کرے جس کے بارے میں ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ مردود ہے) مسلم: (1718)

اور اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا[103]اَلَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا )
ترجمہ: آپ کہہ دیں: کیا ہم تمہیں شدید خسارہ پانے والوں کے بارے میں نہ بتلائیں؟ [103] جن کی محنتیں دنیاوی زندگی میں ہی بھٹک گئیں، اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ کوئی اچھا کام کر رہے ہیں۔[الكهف:103-104]

اس بارے میں  دلائل کیساتھ تفصیلی گفتگو ہماری ویب سائٹ پر فتوی نمبر: (60219) کے تحت گزر چکی ہے۔

دوم:

اگر بکری، گائے، یا کسی بھی جانور کی موت گلا اور گردن کی رگیں کٹنے سے قبل ہی  واقع ہو گئی  چاہے ذبح کرنے والے نے چھری چلانا شروع بھی کر دی ہو  تو یہ جانور حرام ہے، اسے نہیں کھایا جا سکتا؛ کیونکہ یہ اب مردار ہو چکا ہے؛ کیونکہ اس کی وفات ذبح کرنے کی وجہ سے نہیں ہوئی، بلکہ  کسی اور وجہ سے ہوئی ہے، شرعی طور پر کسی جانور کے ذبح ہونے کیلئے گلا اور گردن کی رگیں کٹنا ضروری امر ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
“چھری چلانے والے کو جلدی سے چھری چلانی چاہیے، دیر مت کرے کہ گلا مکمل طور پر کٹنے سے پہلے ہی بکری مرجائے، امام الحرمین سمیت دیگر فقہاء نے ایسے ہی کہا ہے”ا نتہی

ابن حجر ہیتمی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر کوئی شخص ذبح کرتے وقت اتنی آہستہ چھری چلے کہ  گلا مکمل کٹنے سے پہلے  ہی جانور مردہ ہو جائے تو چھری چلانے والے کی سستی کی وجہ سے یہ جانور حلال نہیں رہے گا” انتہی
“تحفۃ المحتاج ” (9/324) اسی طرح دیکھیں:  ” المجموع ” از: نووی (9/100)

خلاصہ یہ ہوا کہ :

اگر گائے گلا اور گردن کی رگیں کٹنے سے پہلے ہی مر گئی تو اسے کھانا حلال نہیں ہوگا؛ کیونکہ گائے شرعی طور پر ذبح ہی نہیں ہو سکی۔

واللہ اعلم.

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android