0 / 0
13,89909/02/2016

کتاب “فضائل اعمال” میں جھوٹی روایات

سوال: 161328

سوال : چند د ن قبل ایک دینی لیکچر میں شرکت کا موقع ملا ،میں نے اس میں چند احادیث سنیں جن کی صحت کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں ،ان احادیث کا تعلق صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین سے ہے ۔

مقرر صاحب نے کہا کہ صحابہ کرام ایمان کے اس درجے پر فائز ہو چکے ہیں کہ بعض غیبی امور بھی جان لیتے تھے ،اور کتاب “فضائل اعمال ” جو کہ تبلیغی جماعت کی مشہور کتاب ہے اس میں سے چند دلائل پیش کیے ، ان میں سے ایک یہ بیان کیا کہ ایک مرتبہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا غزوہ بدر والی جگہ سے گزر ہوا ،تو وہاں ایک قبر کو کھلا ہوا پایا ،جس میں ایک شخص کو عذاب قبر میں مبتلا پایا وہ چیخ چیخ کر پانی مانگ رہا تھا ،لیکن اس کو پانی لینے سے روک دیا جاتا ۔۔۔ جب انہوں نے اس واقعہ کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جی ہاں !یہ ابو جہل ہے ،قیامت تک اسے اسی طرح عذاب ہوتا رہے گا )

ایک اور حدیث یوں بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو مسجد میں سوتے پایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بیدار کیا اور اس کے ایمان کے بارے میں سوال کیا ،اس آدمی نے جواب دیا کہ میرا ایمان کامل ترین حالت میں ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی علامت دریافت کی ، تو اس نے جواب دیا :”کہ وہ اللہ کے عرش ،اور رزق پر مامور فرشتے دیکھتا ہے۔۔۔

تیسری ایک اور چیز بھی بیان کی جو ابھی مجھے یاد نہیں آ رہی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا : ( تیرا ایمان مکمل ہے اور اپنے ایمان کا خصوصی خیال رکھو)
یہ احادیث کہاں تک صحیح ہیں ؟ اگر صحیح ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحابہ کرام بھی بعض غیبی امور کا مشاہدہ کر لیتے تھے ؟اور کتاب “فضائل اعمال ” کی کیا حقیقت ہے ؟

امید ہے کہ وضاحت کے ساتھ تفصیلی جواب عطا فرمائیں گے ، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بدر کے مقام پر ابو جہل کو عذاب میں مبتلا دیکھنے کا واقعہ  جس روایت میں ہے اس کا مکمل متن یہ ہے :
“عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں  کہ :”میں بدر کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک چھوٹے سے گڑھے سے ایک آدمی نکلا ، اس کی گردن میں زنجیر تھی ، اس نے مجھے پکارا : “عبداللہ! مجھے پانی پلا دو،  عبداللہ ! مجھے پانی پلا دو” مجھے معلوم نہیں کہ اسے میرا نام معلوم تھا یا ویسے ہی عبداللہ کہہ کر بلایا جیسے کہ عرب اجنبی شخص کو کہہ کر بلاتے تھے۔[اسی وقت] اس گڑھے میں سے ایک کالے رنگ کا  آدمی نکلا ،جس کے ہاتھ میں کوڑا تھا ،اس نے مجھے پکارا اور کہا: “عبداللہ ! یہ کافر ہے اسے پانی مت پلانا ” پھر اسے کوڑے سے مارنا شروع کیا اور دوبارہ گڑھے میں داخل کر دیا، میں جلدی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا ،اور آپ کو [اس واقعہ ]کی خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت کیا: (کیا واقعی تو نے اسے دیکھا ہے ؟) میں نے جواب دیا: “جی ہاں “، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ یہ اللہ کا دشمن ابو جہل بن ہشام تھا ،اسے قیامت تک اسی طرح عذاب ہوتا رہے گا)

اسے طبرانی نے “المعجم الأوسط”(6/335)میں روایت کیا ہے ،کہتے ہیں :ہمیں محمد بن ابو غسان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں عمرو بن یوسف بن یزید بصری نے بیان کیا ،اس نے عبداللہ بن محمد بن مغیرہ سے روایت کیا ،وہ مالک بن مغول سے روایت کرتے ہیں ،وہ نافع سے ، اور وہ ابن عمر سے بیان کرتے ہیں اس سند کیساتھ  مکمل روایت بیان کرنے کے بعد [طبرانی رحمہ اللہ]کہتے ہیں :”اسے مالک بن مغول سے عبداللہ بن محمد کوفی کے علاوہ کوئی بیان نہیں کرتا”   طبرانی رحمہ اللہ  کی بات ختم ہوئی

یہ سند عبداللہ بن محمد بن مغیرہ کوفی کی وجہ سے انتہائی ضعیف ہے ،اس کوفی کے بارے میں

ابو حاتم رحمہ اللہ کہتے  ہیں :”لیس بقوی “کہ یہ کمزور راوی ہے ۔
ابن یونس رحمہ اللہ کہتے ہیں: یہ راوی “منکر الحدیث ”  ہے۔
ابن عدی کہتے ہیں :اس کی بیان کردہ اکثر روایات کی متابعت نہیں پائی جاتی ۔

اور نسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں :اس کوفی راوی نے سفیان ثوری اور مالک بن مغول سے ایسی روایات بیان کی ہیں کہ سفیان ثوری اور مالک ایسی روایات بیان کرنے سے اللہ کا خوف کھاتے تھے۔

امام ذہبی نے کوفی راوی کی طرف منسوب بعض روایات بیان کرنے کے بعد کہا: “یہ تمام روایات جھوٹی ہیں ”
دیکھیں: ” میزان الاعتدال ” (2/487-488)

ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“اس روایت کی سند میں عبداللہ بن محمد کوفی ہے جو کہ ضعیف ہے ” انتہی

“مجمع الزوائد” (3/57)
 مزید کہتے ہیں :”اس میں ایک راوی ایسا ہے جسے میں نہیں پہچانتا”
“مجمع الزوائد” (6/ 81)

ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ اپنی کتاب “القبور”(صفحہ: 93، اثر نمبر:  92)میں بیان کرتے ہیں :ہمیں میرے والد نے بیان کیا ،وہ کہتے ہیں ہمیں ہشیم نے بیان کیا ،وہ مجالد سے ،انہوں نے شعبی سے بیان کیا کہ: ایک آدمی نے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: “میں بدر کے مقام سے گزرا تو میں نے ایک آدمی کو زمین سے باہر نکلتے دیکھا اور ایک دوسرا آدمی اس کو گرز [مڑے ہوئے کنارے والا لوہے یا لکڑی کے ڈنڈا]سے مارتا ہے حتی کہ وہ دوبارہ زمین میں غائب ہو جاتا ہے، وہ پھر نکلتا ہے اور دوبارہ اس کے ساتھ  یہی معاملہ کیا جاتا ہے ،ایسا کئی بار ہوا، تو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :وہ ابو جہل بن ہشام تھا قیامت تک اسی طرح عذاب ہوتا رہے گا ۔

 جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا یہ حدیث مرسل ہے ،چنانچہ شعبی نہ تو صحابی ہیں اور نہ ہی کبار تابعین میں سے ،ان سے بہت ساری روایات صحابہ سے مرسل منقول ہیں ۔

نیز اس روایت میں ایک راوی مجالد بن سعید ہے ،جسے یحی بن سعید القطان ،ابو حاتم ،احمد ،ابن معین اور نسائی وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے ۔

دیکھیں:”تھذیب التھذیب” (10/41)

دوم:

سوال میں مذکور دوسری حدیث ،شاید اس سے مراد حارث بن مالک الاشعری والی روایت ہے کہ : ”  ان کا گزر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ہوا تو آپ نے اس سے پوچھا :(حارثہ!  کیسے ہو؟) انہوں نے جواب دیا :”میں حقیقت میں پکا مؤمن ہوں” ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(سوچ سمجھ کر بات کرنا ، ہر چیز کی حقیقت ہوتی ہے ،تیرے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟) انہوں نے جواب دیا :”میرا نفس دنیا سے بے رغبت ہو چکا ہے ،اور مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اپنے رب کے عرش کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں ، میں اہل جنت کو باہمی ملاقات کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ،اور اسی طرح میں اہل جہنم کو چیخ و پکار کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں” آپ نے فرمایا: (حارثہ !تو نے [حقیقت کو] پہچان لیا ،اس کی حفاظت کرنا کہیں جانے نہ پائے) آپ نے  تین مرتبہ انہیں یہ بات کہی”

یہ حدیث دو طرح سے مروی ہے ؛مرسل اور متصل ۔

مرسل کئی اسانید سے مروی ہے:

1-ابن نمیر ،کہتے ہیں: ہمیں مالک بن مغول نے زبید سے مرسل بیان کیا ۔
اسے ابن ابی شیبہ نے” المصنف ” (6/170)میں بیان کیا ہے۔

2-عبدالرزاق ،معمر سے وہ صالح بن سمار اور جعفر بن برقان سے روایت کرتے ہیں کہ :”بےشک نبی    صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن مالک سے کہا ۔۔۔الحدیث
اسے بیہقی نے اپنی سند سے “شعب الایمان”(13/160)میں بیان کیا اور کہا :”یہ روایت منقطع ہے “

3-معمر ،صالح بن مسمار سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۔۔۔۔ الحدیث
اسے ابن مبارک نے “الزھد”(1/106)میں بیان کیا ہے ،اور اسی سند سے ابن عساکر نے “تاریخ دمشق “(54/227)میں ذکر کیا ہے، نیز حافظ ابن حجر نے اسے “الإصابہ” (1/689)میں “معضل” کہا ہے ۔

4-حافظ ابن حجر کہتے ہیں :اسے ۔عبد الرزاق  نے اسے اپنی تفسیر میں ثوری  عن عمرو بن قیس الملائی عن یزید السلمی سے بیان کیا ہے کہ: (رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث رضی اللہ عنہ سے کہا ۔۔۔۔)”الاصابہ ” (1/689)

5-ابن ابی شیبہ کہتے ہیں :”ہمیں یزید بن ہارون نے بیان کیا ،وہ کہتے ہیں ہمیں ابو معشر نے محمد صالح الانصاری سے بیان کیا کہ: (رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عوف بن مالک سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : عوف بن مالک!تو نے صبح کیسے کی۔۔۔)”
“الایمان” از: ابن ابی شیبہ (ص/43)

اور متصل روایت کی بھی کئی اسانید ہیں:

1-زید بن حباب کی سند سے ،وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابن لہیعہ نے بیان کیا ،وہ خالد بن یزید سکسکی سے ،اور وہ سعید بن ابی ہلال سے ،اور سعید، محمد بن ابو جہم سے اور وہ مالک بن حارث سے بیان کرتے ہیں ۔
اسے عبد بن حمید نے روایت کیا ہے ،جیسا کہ “المنتخب من المسند “(165)میں ہے اور طبرانی نے “المعجم الکبیر “(3/166) میں ،اور ان سے ابو نعیم نے “معرفۃ الصحابۃ” میں بیان کیا ہے ۔
اور بغوی نے “معجم الصحابۃ “(2/75) میں ،اور بیہقی نے “شعب الایمان” (13/159)میں بھی نقل کیا ہے ۔

یہ سند ابن لہیعہ اور محمد بن ابو جہم کی وجہ سے ضعیف ہے ،ہمیں اس کی توثیق معلوم نہیں ، اس کے حالات زندگی بیان کرنے والے بعض مصنفین نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ہے، لیکن اس کا صحابی ہونا یقینی  نہیں ہے  کیونکہ:
ابو نعیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :”میرا خیال ہے کہ وہ صحابی نہیں ہے “
“معرفۃ الصحابۃ”(1/202)
ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں :”بلکہ وہ تبع تابعی ہیں، انہوں نے حدیث کو مرسل بیان کیا تو بعض راوی متن کے لفظ میں غلطی کا شکار ہو گئے” ۔     
“الإصابۃ ” (6/261)

ابن ابی حاتم نے اسے “الجرح والتعدیل “(7/224)میں نقل کر کے سکوت اختیار کیا ہے ۔
اور باقی راویوں کی روایت مقبول درجے کی ہے ۔

2-بیہقی نے “الزھد الکبیر”(ص/355)میں کہا: “ہمیں ابو عبد اللہ الحافظ نے روایت کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں ابو حامد احمد بن علی بن الحسن المقرئ نے عتیق کی کتاب سے بیان کیا ،وہ کہتے ہیں ہمیں ابو فروہ یزید بن محمد بن یزید بن سنان نے روایت کیا ،وہ کہتے ہیں ہمیں زید بن ابی انیسہ نے عبد الکریم – جو کہ حارث بن مالک کے بیٹے ہیں جیسا کہ ابن مندہ نے اپنی سند میں اس کا نام ذکر کیا ہے -سے وہ[اپنے والد] حارث بن مالک سے بیان کرتے ہیں”
یہ سند انتہائی ضعیف ہے ،اس میں ابو فروہ یزید بن محمد ہے ،جس کے بارے میں دار قطنی رحمہ اللہ کہتے ہیں: “وہ متروک ہے “
دیکھئے “موسوعۃ أقوال الدارقطنی “(2/723)

3- ابو نعیم رحمہ اللہ کہتے ہیں :”اس روایت کو محمد بن فضل بن عطیہ نے غیاث بن مسیب سے روایت کیا، وہ سلیمان بن سعید بن ابی بردہ سے بیان کرتے ہیں ،وہ ربیع بن لوط سے ،اور وہ حارث بن مالک انصاری سے روایت کرتے ہیں ،کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ،پھر اسی طرح مکمل  حدیث بیان کی”
” معرفۃ الصحابۃ ” (2/777)

اس سند میں بھی توقف اختیار کیا گیا ہے ،کیونکہ ہمیں سلیمان بن سعید بن ابی بردہ کا کوئی قابل ذکر تعارف نہیں ملا ،بلکہ ہمارے علم کے مطابق اس کا اہل علم کی کتابوں میں کوئی ذکر نہیں  ہے، اور مزید یہ کہ اس میں غیاث بن مسیب  ہے، جس کے بارے میں امام ذہبی رحمہ ا للہ کہتے  ہیں :”وہ مجہول ہے “
    میزان الاعتدال (3/338)

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اس کی سابقہ تمام اسانید ضعیف اور منکر ہیں ،ان تمام اسانید کا دار و مدار مرسل ،مجہول اور ضعیف راویوں پر ہے ،اور ان جیسی اسانید ایک دوسرے کو تقویت نہیں پہنچاتی ،جیسا کہ حدیث کے شواہد جو انس بن مالک اور ابو ہریرہ سے مروی ہیں ،[مذکورہ] قصہ کو تقویت نہیں پہنچاتے ،اور نہ ہی اس کے ثبوت پر دلالت کرتے ہیں ۔

اسی وجہ سے اس حدیث کو علماء نے ضعیف قرار دیا ہے ،ہمارے علم کے مطابق کسی بھی صاحب علم سے اس کی تصحیح مروی نہیں ہے ۔

عقیلی رحمہ اللہ کہتے  ہیں :”اس کی کوئی بھی سند ایسی نہیں جو ثابت ہو”
“الضعفاءالکبیر”(4/455)

اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے  ہیں :
“وہ حدیث جسے ابن عساکر نے مرسل بیان کیا ہے ،اور ایک دوسری سند سے مسند مروی ہے وہ ضعیف ہے  ثابت نہیں ہے”
 “الاستقامۃ “(1/194)

اور ابن رجب رحمہ اللہ نے کہا :
“یہ حدیث بہت ساری سندوں سے مرسل بیان کی گئی ہے ،اور یوسف بن عطیہ الصفار کی سند سے مسند و متصل بھی مروی ہے ،لیکن اس میں ثابت کا انس سے بیان کرنا ضعیف ہے۔۔۔ اس کا مرسل ہونا ہی صحیح ہے” یہ اقتباس کتاب “التخویف من النار “(ص 45)سے بالاختصار بیان کیا گیا ہے۔

اور مزید کہتے ہیں کہ:
“اسے بہت سی مرسل اور متصل اسانید سے روایت کیا گیا ہے، اور اس کا مرسل ہونا ہی  زیادہ صحیح ہے “
 “جامع العلوم والحکم”(1/127)

اور عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“دونوں حدیثیں – یعنی حارث اشعری اور انس بن مالک سے مروی شاہد والی حدیث – ضعیف ہیں “
“المغني عن حمل الأسفار “(1575)

اور ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“اس میں ابن لہیعہ اوربعض ایسے راوی ہیں جن کی معرفت کی ضرورت ہے “
“مجمع الزوائد “(1/57)

اور بو صیری کہتے ہیں :
“اسے عبد بن حمید نے ایسی سند سے روایت کیا ہے جو عبداللہ بن لہیعہ کی وجہ سے ضعیف ہے”  “إتحاف الخیرۃ المھرۃ “(7/454)

اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر حدیث بالفرض صحیح بھی ہو ،تو اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ حارث الاشعری کا مقصد عرش دیکھنے سے یہ تھا کہ آنکھوں سے دیکھا ،بلکہ مقصد تمثیل بیان کرنا ہے جس سے اللہ پر ایمان کے قوی ہونے کی دلیل ملے،گویا کہ انہوں نے پوشیدہ چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا، جیسا کہ مشہور صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : (احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت ایسے کرے گویا تو اللہ کو دیکھ رہا ہے)
حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
” بندہ اپنے دل سے اس کا مشاہدہ کرے ،تو وہ ایسے ہو جائے گا گویا کہ وہ اللہ کو دیکھ رہا ہے اور ذات باری کا مشاہدہ کر رہا ہے ،یہ مقامِ احسان کی انتہا ہے ،اور یہ اللہ کو اچھی طرح پہچان لینے والوں  کا درجہ ہے ،اور حارثہ والی حدیث کا یہی معنی ہے؛ کیونکہ اس نے کہا :  “مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اپنے رب کے عرش کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں ، میں اہل جنت کو باہمی ملاقات کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ،اور اسی طرح میں اہل جہنم کو چیخ و پکار کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں” تو آپ نے فرمایا: (حارثہ !تو نے [حقیقت کو] پہچان لیا ،اس کی حفاظت کرنا کہیں جانے نہ پائے، یہ ایسے بندے کی حالت ہے جس کے دل کو اللہ تعالی نے نورِ ایمان سے منور کر دیا ہے)
یہ حدیث مرسل ہے ،اسے مسند [بھی]بیان کیا گیا ہے [لیکن ]ضعیف سند کے ساتھ۔

اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عروہ رحمہ اللہ کو طواف کے دوران آپ سے آپ کی بیٹی کا رشتہ مانگنے پر کوئی جواب نہ دیا ،لیکن دوبارہ جب ملاقات ہوئی تو معذرت کی، اور کہا :ہم طواف کے دوران اللہ تبارک و تعالی کو اپنی آنکھوں کے سامنے سمجھتے ہیں۔۔۔”
اسے بالاختصار ابن رجب کی فتح الباری (1/212-214)سے نقل کیا گیا ہے ۔

سوم:

کتاب “فضائل اعمال ” کا پرانا نام “تبلیغی نصاب” ہے اور اسی نام سے اس کی پہلے طباعت ہوئی، اور یہ محمد زکریا کاندہلوی کی تصنیف ہے ، خرافات اور حکایات سے بھری پڑی ہے ،چہ جائیکہ اس میں مذکور ایمانیات کا ذکر کیا جائے ۔

شیخ حمود تویجری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
“اس میں شرکیات ،بدعات ،خرافات ،احادیث ضعیفہ اور موضوعہ کثرت سے موجود ہیں، حقیقت میں یہ کتاب [اسلام اور فضائل کی نہیں بلکہ] شر، گمراہی اور فتنے کی کتاب ہے” “القول البلیغ “(ص/11)

شیخ شمس الدین افغانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
“دیو بندیوں کے اکابر کی جن کتابوں کو ان کے ہاں تقدس کا درجہ حاصل ہے ، یہ قبر پرستوں کی یاوہ گوئی[بے ہودہ اور لچرگفتگو]اور صوفیوں کی صنم پرستی سے بھری پڑی ہیں ،- انہوں نے بہت ساری کتابوں کے نام لیے- جیسے :  “تبلیغی نصاب” ، یعنی تبلیغی کورس اور اس کا طریقۂِ کار  دیوبندیوں نے ان کتب سے نہ ہی لاتعلقی کا اظہار کیا ،اور نہ ہی ان سے دور رہنے کی تلقین کی اور نہ ہی اس کی طباعت روکی  ،اور نہ ہی اس کی خرید و فروخت سے منع کیا ،انڈیا ،پاکستان اور دیگر کئی ایک ممالک کے بازار ان کتب سے بھرے ہیں “
“جھودعلماءالحنفیۃ فی إبطال عقائدالقبوریۃ”(2/766)

اور “فتاوی اللجنۃ الدائمۃ” میں مذکور ہے:
“جو کچھ ان کتب میں  بشمول کتاب “فضائل اعمال” منقول ہے ،اور جن کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے، سب سنگین بدعات میں شامل ہے ،اور ان تمام باتوں کا انحصار نہ کسی شرعی حقیقت  پر ہے، اور نہ ہی کتاب و سنت میں اس کی کوئی اصل ہے “
“فتاوی اللجنۃ الدائمۃ”  دوسرا ایڈیشن (2/99)

عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز ،عبد العزیز آل شیخ ،عبداللہ بن غدیان ،صالح الفوزان ،

بکر ابو زید  

کتاب فضائل اعمال سے دور رہنے کے متعلق سوال نمبر : (108084) کے جواب میں تفصیل میں گزر چکی ہے ۔

چہارم:

کسی انسان کا غیب جاننے کا دعوی، کوئی عام پرہیز گار  مؤمن آدمی نہیں کر  سکتا، تو صحابہ اور تابعین میں سے علماء اور صالحین یہ دعوی کیسے کر سکتے ہیں ! کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
 عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا [26] إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ
ترجمہ: وہی غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا [26] سوائے ایسے رسول کے جسے وہ[کوئی غیب کی بات بتانا ]پسند کرے۔ [سورہ جن :26۔27]

جب انبیاء بھی معمولی سی مقدار کے علاوہ غیب کی بات نہیں جانتے ، وہ بھی اللہ تعالی انہیں اس لئے معلوم کروا دیتا ہے تاکہ ان کی نبوت کی نشانی ثابت ہو، تو ان غیروں کے متعلق کیا خیال ہے جو کلی علم غیب اور لوح محفوظ پر مطلع ہونے کا دعوی کرتے ہیں !!

“عقیدہ  طحاویہ” کے متن میں مذکور ہے :
“علم دو قسم کا ہے  ؛ایک جو مخلوق میں موجود ہے ،اور دوسرا جو مخلوق میں موجود نہیں ؛موجود علم کا انکار کفر ہے ،جیسا کہ غیر موجود علم کا دعوی کفر ہے ،اور موجود علم کے قبول کرنے اور نامعلوم علم کی تلاش نہ کرنے سے ہی ایمان ثابت ہوتا ہے “

شیخ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ نے اس کی شرح میں کہا:
“جو بھی علم غیب کا دعوی کرتا ہے وہ کافر ہے “

“شرح العقیدۃ الطحاویۃ “(ص/262)

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android