0 / 0
3,50027/01/2013

شادى سے پہلے بيوى كو مہر ديا اور شادى كى تقريب كے اخراجات بھى اسى ميں شامل كيے تو كي طلاق كے بعد يہ اخراجات مہر ميں شامل كيے جائينگے ؟

سوال: 151062

طرفين كے مابين يہ طے پايا كہ مہر مقدم پانچ ہزار ڈالر اور مہر مؤخر پانچ ہزار ہوگا، پيشگى پانچ ہزار ميں عقد نكاح اور وليمہ كى تقريب كے اخراجات ہونگے، يہ كہا جا سكتا ہے كہ ايك ہزار عقد نكاح كى تقريب پر خرچ ہوئے، ليكن رخصتى سے قبل ( دولہا اور دلہن كے آپ ميں بالكل ازدواجى تعلقات قائم نہيں ہوئے اور نہ ہى وہ ايك گھر ميں رہے ہيں…. الخ ) طلاق كا مطالبہ كر ديا گيا، تو كيا اس حالت ميں نصف مہر كى ادائيگى ہوگى جس ميں سے ايك ہزار كٹوتى كر لى جائے يعنى بيوى كو چار ہزار ادائيگى كى جائيگى ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

جب كوئى شخص اپنى بيوى كو دخول و رخصتى سے قبل طلاق دے تو بيوى كو نصف مہر ادا كرنا ہوگا؛ يعنى مہر مقدم اور مؤخر دونوں كا نصف؛ اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تم ان عورتوں كو ہاتھ لگانے ( ہم بسترى ) سے قبل طلاق دے دو اور ان كا مہر مقر كر چكے تو مقرر كردہ مہر كا نصف ادا كرنا ( لازم ) ہے، ليكن اگر وہ خود معاف كر ديں يا وہ شخص معاف كر دے جس كے ہاتھ ميں نكاح كى گرہ ہے، اور تمہارا معاف كرنا تقوى كے زيادہ قريب ہے، اور تم آپس ميں احسان كرنا مت بھولو، يقينا اللہ تعالى جو تم كر رہے ہو وہ خوب ديكھ رہا ہے البقرۃ ( 237 ).

دوم:

نكاح كے وليمہ كى تقريب اور وليمہ خاوند كے ذمہ ہے بيوى كى ذمہ دارى نہيں، ليكن اگر بيوى بطور تعاون كرتى ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں.

سوم:

اگر يہ اتفاق ہوا ہو كہ پانچ ہزار مہر مقدم ہوگا اور اس ميں سے عقد نكاح اور وليمہ كے اخراجات ليے جائيں گے، اور اخراجات ايك ہزار ہوں تو يہاں دو احتمال ہيں:

پہلا احتمال: يہ اخراجات مہر ميں شامل نہيں ہونگے كيونكہ مہر تو خالصات بيوى كا حق ہے، اور وليمہ كرنا اور شادى كى تقريب بيوى كى ذمہ دارى نہيں بلكہ خاوند كى ہے تو اس طرح مہر مقدم چار ہزار ہوگا، اور مہر مؤخر پانچ ہزار اور مكمل مہر نو ہزار ہوا، اس ليے اگر رخصتى و دخول سے قبل طلاق ہو جائے تو نصف مہر يعنى ساڑھے چار ہزار كى ادائيگى كرنا ہوگى.

دوسرا احتمال: مہر مقدم پانچ ہزار ہو اور بيوى اس ميں سے عقد نكاح اور وليمہ كے اخراجات بطور تعاون ادا كرے، اس طرح اگر طلاق رخصتى سے قبل ہوئى تو اسے نصف مہر ديا جائيگا، يعنى پانچ ہزار كيونكہ مہر دس ہزار مقرر كيا گيا ہے، اور بيوى كو اپنے ايك ہزار تعاون و ہبہ ميں رجوع كا حق ہے كيونكہ يہ خالص ہبہ نہيں بلكہ شادى كى تكميل كے ليے تھا اس ليے جب خاوند كى جانب سے طلاق ہوئى تو يہ شادى كى تكميل نہيں، لہذا بيوى كو ايك ہزار واپس لينے كا حق حاصل ہوا.

تيسرا احتمال بنانا كہ: وہ يہ كہ نصف مہر پانچ ہزار كيا جائے اور اس ميں سے اخراجات كى كٹوتى كر لى جائے اس ليے چار ہزار كى ادائيگى كرنا غلط ہے؛ كيونكہ بيوى يہ اخراجات برداشت نہيں كريگى، اور اسى طرح ان اخراجات كو بيوى كے مہر ميں شامل كرنا بھى صحيح نہيں ہے.

حاصل يہ ہوا كہ: تقريب كے اخراجات يا تو ابتدا ميں ہى مہر سے خارج ہونگے، اور يہى پہلا احتمال ہے، يا پھر وہ مہر ميں داخل ہونگے جو بيوى نے بطور تعاون ديے ہيں، اور يہ دوسرا احتمال ہے، اور بيوى كو اس سے رجوع كرتے ہوئے طلب كرنے كا حق حاصل ہے.

دوسرا احتمال زيادہ ظاہر معلوم ہوتا ہے اور واقع حال كى بھى يہى زيادہ قريب بھى ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android