سوال:میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان – آپکے ہر فرمان کو ہم سب سے مقدم جانتے ہیں-(جب بھی اللہ سے مانگو تو فردوس اعلی کا سوال کرو) اور اس قول کے درمیان تطبیق کیسے دیں: احمد سے مروی ہے کہ وہ کہتے ہیں میں نے ابو سلیمان درانی سے کہا: کوئی آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ:یا اللہ مجھے اپنا دوست بنا لے؟ ابو سلیمان نے کہا: اگر اپنے اندر انکی صفات پاتا ہو تو ٹھیک ہے، ورنہ دعا مانگتے ہوئے زیادتی سے کام نہ لے۔
میں بہت گناہگار، نافرمان، اور غافل خاتون ہوں ، اللہ ہی جانتا ہے کہ مجھ میں کتنے عیب ہیں، میری تمنا ہے کہ اللہ تعالی اپنی رحمت سے میری حالت بدل دے، میں تمنا کرتی ہوں کہ میں اللہ کے اولیاء میں شامل ہوجاؤں، تو کیااگر میں نے یہ دعا کی: “یا اللہ!مجھے اپنے اولیاء میں شامل کرلے” تو کیا یہ میری طرف سے دعا میں زیادتی شمار ہوگی؟
کیایہ دعا کرنا جائز ہے کہ: “یا اللہ مجھے اپنے اولیاء میں سے بنا دے”
سوال: 145689
اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔
اول: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: (تم جب بھی اللہ سے مانگو تو فردوس مانگو، فردوس ہی جنت کا درمیانی، اور بلند ترین درجہ ہے، اور اسکے اوپر رحمن کا عرش ہے، اور اسی سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں)بخاری: (7432) اور اس حدیث میں امت کیلئے بلند ہمت، اور بلند مقام مانگنے کی ترغیب دی گئی ، جیسے کہ مبارکپوری رحمہ اللہ نے “تحفۃ الاحوذی” (7/201) میں ذکر کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خطاب تمام امت کیلئے ہے، کوئی بھی اس سے مستثنی نہیں ہے۔ اس پر یہ بھی اشکال وارد نہیں ہونا چاہئے کہ گناہگار، اور نافرمان مسلمانوں کو انکے اعمال جنت کے اس بلند درجہ تک پہنچنے کے قابل نہیں بنا پائیں گے؛ کیونکہ جنت میں ہر کسی کا داخلہ اللہ کے فضل سے ہی ہوگا، اور اللہ کے فضل کو کوئی بھی چیز روک نہیں سکتی۔ دوم: کسی بھی مسلمان پر اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالی سے اسکے نیک اولیاء ، مخلص صدّیقین، یا متقی و ابرار افراد میں شمولیت کی دعا کرے۔ جو کوئی کتاب وسنت میں وارد دعائیہ الفاظ پر غور کرے تو بہت سے ایسے الفاظ اسے ملیں گے جو اللہ تعالی سے دین کا بلند مرتبہ و منزل مانگنے پر مشتمل ہیں۔ اور اللہ تعالی نے اپنے ایسے بندوں کی مدح سرائی کی ہے جو اللہ تعالی سے پیشوائی کا سوال کرتے ہیں، چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ترجمہ: اور جو دعا کرتے ہیں کہ: ہمارے پروردگار! ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔ [الفرقان : 74] “اور دین میں امامت کا درجہ صدّیقین کے مراتب میں سب سے بلند درجہ ہے” “مفتاح دار السعادة” از: ابن قيم (1/81) شیخ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ” [اس آیت کا مطلب ہے کہ:] اے ہمارے پروردگار! ہمیں اس بلند مرتبہ پر فائز فرما، جو کہ صدّیقین، اور اللہ تعالی کے نیک و کامل بندوں کا درجہ ہے، اور وہ ہے دین میں امامت، اور ہمیں متقی لوگوں کیلئے اقوال و افعال میں نمونہ بنا دے”انتہی ” تيسير الكريم الرحمن ” صفحہ: 578 اور سنت نبوی سے ثابت دعاؤں میں سے چند یہ ہیں: (… رَبِّ اجْعَلْنِي لَكَ شَكَّارًا ، لَكَ ذَكَّارًا ، لَكَ رَهَّابًا ، لَكَ مِطْوَاعًا ، لَكَ مُخْبِتًا ، إِلَيْكَ أَوَّاهًا مُنِيبًا ..) ترجمہ:”یا اللہ! اپنا بہت زیادہ شکر گزاربنا، تیرا ہی ذکر کرنے والا بنا، تجھ سے ڈرنے والابنا، تیری ہی اطاعت کرنے والا بنا، تیرے ہی سامنے بجھنے والا بنا، اور تیری ہی طرف رجوع کرنے والا بنا” اسے ترمذی (3551)نے روایت کیا ہے، اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن اور صحیح ہے، اور البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اسی طرح سنن نسائی (1305)میں ہے کہ : (… اللَّهُمَّ زَيِّنَّا بِزِينَةِ الْإِيمَانِ ، وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مُهْتَدِينَ ) ترجمہ: “۔۔۔ یا اللہ ہمیں ایمان کی دولت سے مزین فرما، اور ہمیں ہدایت یافتہ راہنما بنا” اسے البانی نے صحیح قرار دیا ہے اور صحیح ابن حبان (5/303)میں ہے کہ: (اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ إِيمَانًا لاَ يَرْتَدُّ ، وَنَعِيمًا لاَ يَنْفَدُ ، وَمُرَافَقَةَ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم فِي أَعْلَى جَنَّةِ الْخُلْدِ ) ترجمہ: یا اللہ! میں تجھ سے ایسے ایمان کا سوالی ہو جو منہ مت موڑے، ایسی نعمت کا سوالی ہوں جو کبھی ختم نہ ، اور بلند وبالا جنتوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت چاہتا ہوں۔ اس قسم کی دعائیں ہر مسلمانک کو کرنی چاہئیں، حتی کہ گناہگار کو بھی، کیونکہ اللہ تعالی ایک لمحے میں حالت بدل کر کسی اور حالت میں تبدیل سکتا ہے، بندوں کے دل رحمن کی انگلیوں میں ہیں، جیسے چاہتا ہے انہیں تبدیل کردیتا ہے۔ اللہ کے کتنے ہی نیک بندے ہیں جو کہ گناہگار، اور نافرمان تھے، اللہ تعالی نے انکی توبہ قبول کی اور وہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اللہ کے اولیاء اور متقین میں شامل ہوگئے۔ مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر: (117186) کا بھی مطالعہ کریں۔ سوم: ابو نعیم نے حلية الأولياء (9/265) میں روایت کیا ہے کہ احمد بن ابو الحواری کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلیمان دارانی کو کہا: کیا ایک آدمی کیلئے جائز ہےکہ وہ کہے؟ یا اللہ! مجھے صدّیق بنادے۔ تو انہوں نے کہا:اگر اپنے اندر ان جیسی صفات دیکھے تو جائز ہے ورنہ زیادتی نہ کرے، کیونکہ دعا میں بھی زیادتی ہوتی ہے۔ یہ اثر ابو سلیمان دارانی (متوفی: 205)سے منقول ہے جو کہ ائمہ سلف میں شمار ہوتے ہیں، انکے اس قول کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ، کیونکہ حجت وہی ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے۔ ائمہ میں سے ہمیں کسی کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ انہوں نے ابو سلیمان دارانی کی موافقت کی ہو، چنانچہ اللہ تعالی سے ولایت طلب کرنا ہر مسلمان کا مقصود ہے، اور اس میں دعا میں ہونے والی زیادتی بھی نہیں ہے۔ اور دعامیں زیادتی کے ضوابط جاننے کیلئے سوال نمبر: (128084) کا مطالعہ کریں۔ ابو سلیمان دارانی کے قول کو صحیح معنی پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ : درجۂ صداقت مانگنے والے کو صدّیقین کے اخلاق سے مزین ہونا چاہئے، چنانچہ دعا کیساتھ عمل بھی کرے۔ اللہ تعالی سے صدّیقین کا درجہ مانگنے میں ضمنی طور پر ایسے اعمال کرنے کی توفیق کا سوال بھی شامل ہے جن کے ذریعے انسان اس بلند درجے تک پہنچتا ہے۔ شیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: “عباد الرحمن کا اپنے پروردگار سے یہ مانگنا کہ انہیں متقی لوگوں کا امام بنا دے، اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ اللہ تعالی سے دین کی امامت کیلئے عظیم علوم و معارف، اعمال صالحہ ، اور اعلی اخلاق جیسے ضروری امور کا بھی سوال کریں؛ کیونکہ انسان کی اللہ تعالی سے کسی بھی چیز کی دعا اس چیز کا موجب بننے والے اسباب کو بھی شامل ہوتی ہے، چنانچہ اگر کوئی جنت کا اللہ سے سوال کرے اور جہنم سے اللہ کی پناہ چاہے تو وہ بندہ ہر اس چیز کا سوال کرتا ہے جو اسے جنت کے قریب کردے، اور جہنم سے دو ر کردے “انتہی “القواعد الحسان في تفسير القرآن” صفحہ: 24 واللہ اعلم.
ماخذ:
الاسلام سوال و جواب