جب خريدار اور تاجر كےمابين اتفاق ہوا ہو كہ وہ خريدار يا پھر بائع يا دونوں سے ہي معلوم مقدار ميں كميشن لےگا توجائز ہے، كميش كا كوئي تناسب مقرر نہيں ، بلكہ كميش دينےوالا جس پر متفق ہوجائے يہ جائز ہے، ليكن يہ اتني ہوني چاہيے جوعام طور پر لي جاتي ہے اور لوگوں ميں معروف ہے جودلال كي محنت اور كوشش كےعوض ميں اسے بطور نفع حاصل ہوتي ہے، تا كہ خريدار اور تاجر كےمابين سودا طے پاجائے، اور اس ميں نہ تو خريدار كو نقصان ہو اور نہ ہي بائع كو، اورعادت كےزيادہ بھي نہيں ہوني چاہيے .
0 / 0
5,07316/جمادى الأولى/1431 , 30/اپریل/2010
فروخت كےوقت كميشن كي مقدار كيا ہے
سوال: 13960
دلال كي كميشن كےبارہ ميں بہت جھگڑ چل نكلا ہے كہ اس كي مقدار كيا ہوگي بعض اوقات اڑھائي فيصد، اور بعض اوقات پانچ فيصد ليتےہيں، لھذا شرعي كميشن كيا ہے، يا كہ بائع اور تاجر كےمابين اتفاق كےمطابق ہوگي ؟
جواب کا متن
ہمہ قسم کی حمد اللہ کے لیے، اور دورو و سلام ہوں اللہ کے رسول پر، بعد ازاں:
ماخذ:
ديكھيں: فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 130 )