0 / 0
10,12424/02/2015

تقریر یا خطاب کے بعد اجتماعی دعا میں کوئی حرج نہیں ہے

سوال: 132538

سوال: کیا اجتماعی طور پر دعا مانگنا درست ہے؟ مثال کے طور پر امام تقریر کرنے کے بعد اجتماعی دعا کروائے۔

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

دعا ان  افضل ترین عبادات میں سے ایک ہےکہ جن کے ذریعے ایک مسلمان اپنے رب کی بندگی بجا لاتا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ)
ترجمہ: اور تمہارے رب نے کہہ دیا کہ: مجھے پکارو! میں تمہاری دعائیں قبول کرونگا، بیشک جو لوگ میری عبادت سے رو گردانی کرتے ہیں، وہ عنقریب رسوا ہوکر جہنم میں داخل ہونگے[ غافر:60]

اور نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دعا ہی عبادت ہے”تمہارے رب نے کہہ دیا ہے کہ: تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کرونگا”)
ترمذی:(2969) نے روایت کیا ہے، اور اسے صحیح بھی قرار دیا، ،اسی طرح ابو داود :(1479) ابن ماجہ:(3828)  نے بھی اسے روایت کیا ہے، اور البانی نے “صحیح ابو داود ” میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

*یہاں ہم ایک  اہم بات کی طرف تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ: کچھ لوگ “اجتماعی ذکر” اور “اجتماعی دعا” کے درمیان صحیح طرح تفریق نہیں کر پاتے، فرق یہ ہے کہ: “اجتماعی ذکر” کا شریعت میں کوئی وجود نہیں ہے، لہذا ایسی کوئی بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت نہیں ہے کہ آپ نے اپنے صحابہ کرام کے ساتھ بیک آواز ذکرفرمایا ہو، اور نہ ہی کہیں  یہ ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کا ذکر کریں اور صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیچھے پیچھے دہرائیں۔

جبکہ اجتماعی دعا کی  شریعت میں کئی صورتیں ملتی ہیں، مثلاً: قنوت نازلہ اور قنوت وتر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  دعا فرماتے، اور صحابہ کرام آپکی دعا پر آپکے پیچھے پیچھے آمین کہتے، یہی وجہ ہے کہ جمہور علمائے کرام جمعہ کے دن خطیب  کی دعا پر آمین کہنے کے قائل ہیں، اسی طرح استسقاء میں، اوراسی طرح اور  بھی اجتماعی دعا کی صورتیں ملتی ہیں۔

جبکہ اجتماعی دعا کی بدعتی صورتوں میں سے کچھ یہ ہیں:
1-  کچھ لوگ صرف دعا کرنے کی نیت سے اکھٹے ہوں، اس کے بدعت ہونے کے بارے میں  ابو عثمان کہتے ہیں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے گورنر نے آپکی طرف یہ لکھ بھیجا کہ: “یہاں کچھ لوگ اکٹھے ہو کر مسلمانوں اور اپنے گورنر کیلئے دعا کرتے ہیں” تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا: “تم  میرے پاس حاضر ہو، اور ان لوگوں کو بھی  اپنے ساتھ لاؤ” تو جب وہ عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے،  عمر رضی اللہ عنہ  نے دربان کو حکم دیا: “مجھے ڈنڈا دو” جب وہ عمر رضی اللہ عنہ  کے سامنے آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے انکے امیر کی ڈنڈے سے تواضع کی۔
اسے ابن ابی شیبہ نے  اپنی “مصنف” (13/360) میں روایت کیا ہے، اور  اس اثر کی سند حسن درجہ کی ہے۔

2- لوگ بیک آواز دعائیں کریں، اس کے بارے میں شیخ بکر ابو زید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“بیک آواز اجتماعی ذکر چاہے  آہستہ آواز میں ہو، یا با آواز بلند، اس میں ثابت شدہ معین ذکر بار بار پڑھا جائے یا غیر ثابت شدہ،  سب لوگ  اکٹھےذکر کریں، یا کوئی اور انہیں ذکر  کروائے، اس کیلئے ہاتھ اٹھائیں یا نہ اٹھائیں، ان تمام کیفیات کیلئے کتاب و سنت سے دلیل چاہیے؛ کیونکہ یہ سب عبادت میں داخل ہے، اور عبادات کی بنیاد توقیف ، اور اتباع پر ہوتی ہے، بدعات، اور خود ساختہ نظریات پر نہیں ہوتی؛ اسی لیے اگر ہم کتاب و سنت  کے دلائل میں تلاش بھی کر لیں تو ہمیں کوئی ایسی دلیل نہیں ملے گی جس میں ان کیفیات کیساتھ ذکر کرنے کا ثبو ت ملے، چنانچہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس انداز سے عبادت کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور جس عبادت کی شریعت میں کوئی دلیل نہ ہو تو وہ بدعت ہوتی ہے، اس لئے مذکورہ انداز سے ذکر، اور اجتماعی دعا بدعت قرار پائے گی، لہذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا کرنے والے ہر مسلمان پر اسے ترک کرنا لازم ہے، اسے چاہیے ان سے دور رہے، اور صرف شرعی طریقہ عبادت پر کاربند رہے۔
اس لئے بیک آواز اجتماعی دعا کرنا ، چاہے مطلق طور پر دعا  ہو یا  مرتب  انداز میں مثلاً: قرآن مجید کی تلاوت کے بعد، یا وعظ و نصیحت کے بعد  یہ سب بدعت ہے”
“تصحیح الدعاء” (ص 134 ، 135)

البتہ مقرر، یا استاد درس کے آخر میں دعا کرے اور حاضرین مجلس اس پر آمین کہیں، تو اس کے بارے میں ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت سے جواز کی دلیل  ملتی ہے، بلکہ یہ عمل مستحب ہے، چنانچہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عموماً اپنی مجلس برخاست کرنے سے قبل اپنے صحابہ کرام کیلئے ان الفاظ میں دعا مانگتے: (اللَّهُمَّ اقْسِمْ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيكَ ، وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ ، وَمِنْ الْيَقِينِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مُصِيْبَاتِ الدُّنْيَا ، وَمَتِّعْنَا بِأَسْمَاعِنَا ، وَأَبْصَارِنَا ، وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا ، وَاجْعَلْهُ الْوَارِثَ مِنَّا ، وَاجْعَلْ ثَأْرَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا ، وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا ، وَلَا تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا فِي دِينِنَا ، وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْيَا أَكْبَرَ هَمِّنَا ، وَلَا مَبْلَغَ عِلْمِنَا ، وَلَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ لَا يَرْحَمُنَا)[یا اللہ! ہمیں اپنی اس قدر  خشیت عطا فرما جو ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہوجائے، اور اپنی  اتنی اطاعت نصیب فرما کہ جو  تیری جنت تک ہمیں پہنچا دے، اور اتنا یقین عنائت فرما جس سے ہم پر دنیاوی مصیبتیں ہوا ہو جائیں، اور ہمیں ہمارے کانوں، آنکھوں، اور قوت سے جب تک زندہ رہیں فائدہ دے،  اور ہمارے وارث بنا، اور ہمارا انتقام ظالموں تک محدود رکھ، اور ہم پر ظلم کرنے والوں کے خلاف ہماری مدد فرما، ہمیں دین کے بارے میں آزمائش میں  مت ڈال، دنیا ہی کو ہمارا اصل مقصد نہ بنا اور نہ دنیا کو ہمارے علم کی انتہا بنا اور ہم پر ایسے شخص کو مسلط نہ کر جو ہم پر رحم نہ کرے] ترمذی: (3502) اسے البانی نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔

نووی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب : “الاذکار” میں اس حدیث پر عنوان قائم کرتے ہوئے  لکھا ہے:
“مجلس میں بیٹھے شخص  کی اپنے لئے اور دیگر حاضرین کیلئے دعا”

شیخ  عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
بسا اوقات تقریر یا کسی درس کے بعد مقرر اپنے ہاتھ اٹھا کر  دعا کرواتا ہے، تو کیا اجتماعی دعا کے دوران ہم بیٹھے رہیں یا  درس ختم ہونے کے بعد  اور دعا شروع ہونے سے پہلے اٹھ کر چلے جائیں۔

تو انہوں نے جواب دیا:
“درس ، وعظ و نصیحت یا تقریر کے بعد دعا  میں کوئی حرج نہیں ہے، اس میں حاضرین کیلئے اللہ تعالی سے کامیابی ، ہدایت، اخلاص نیت، اور نیک عمل کی دعا مانگے، تاہم ایسی دعا میں ہاتھ اٹھانے کے  بارے مجھے کسی دلیل کا علم نہیں ہے، اور مجھے جہاں تک علم ہے وہ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے دعا میں ہاتھ اٹھانے کا مطلق طور پر ذکر آتا ہے کہ ہاتھ  اٹھا کر دعا کرنا قبولیتِ دعا کیلئے  ایک سبب ہے،البتہ  مجھے ایسی کوئی دلیل یاد نہیں آتی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے وعظ و نصیحت کے بعد  ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی ہو، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسا کیا ہوتا تو صحابہ کرام ہمیں اس کےبارے میں ضرور بتلاتے؛ کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہمارے لئے ایک ایک چیز بیان کردی ہے، چنانچہ بہتر اور مناسب یہ ہے کہ اس طرح دعا کرتے ہوئے ہاتھ مت اٹھائے، جہاں دلیل ملے وہاں ہاتھ اٹھا لیے جائیں، اس لئے مقرر کا تقریر کرنے کے بعد یہ کہنا: “اللہ تعالی ہماری اور آپکی بخشش فرمائے، ہمیں اور آپکو نیک اعمال کی توفیق دے،  اللہ تعالی جو کچھ سنا ہے اس سے ہم سب کو مستفید ہونے کی توفیق عنائت فرمائے” یا اسی طرح کی مزید دعاؤں میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر سامعین اس پر آمین بھی کہہ دیں تو تب بھی کوئی حرج نہیں”انتہی

واللہ اعلم

“فتاوى نور على الدرب” (شريط رقم 610).

ماخذ

اسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android