"ایسے شخص کے لیے وہ عمل بہتر ہے جس سے اس کے دل کی اصلاح ہو، جس چیز کا اثر زیادہ ہوتا ہے چاہے وہ تلاوت ہے یا تلاوت سننا ؛ وہی عمل کرے؛ کیونکہ قرآن کریم کی تلاوت کا مقصد غور و فکر اور قرآن کریم کے معنی کو سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ ترجمہ: یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے یہ بابرکت ہے، تاکہ وہ اس کی آیات پر غور و فکر کریں اور عقل والے نصیحت حاصل کریں۔[ص: 29]
اسی طرح فرمایا:
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ
ترجمہ: یقیناً یہ قرآن اسی عمل کی جانب رہنمائی کرتا ہے جو ٹھوس ترین ہوتا ہے۔ [بنی اسرائیل: 9]
ایسے ہی فرمایا:
قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ
ترجمہ: کہہ دو: یہ ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے۔ [فصلت: 44] "
" مجموع فتاوى ابن باز" (24/363)
واللہ اعلم