0 / 0
8,05819/12/2009

كافرہ عورت سے زنا كرنےكے بعد شادى كرنا

سوال: 126051

ايك شخص نے كافرہ لڑكى سے زنا كا ارتكاب كيا اور اب وہ اس لڑكى كے ساتھ مرتبط ہے، يہ لڑكى اب تك مسلمان نہيں ہوئى، كيا يہ شخص منافق شمار ہو گا كيونكہ وہ ايك مسلمان خاندان كى طرف منسوب ہے اور اس كى بيوى غير مسلم ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

زنا كبيرہ گناہ ہے اور اس كے مرتكب شخص اللہ سبحانہ و تعالى نے المناك عذاب كى وعيد سنائى ہے، اس ليے جو شخص بھى اس گناہ كا مرتكب ٹھرے اسے اس سے سچى و پكى توبہ كرنى چاہيے، اور اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اللہ سبحانہ و تعالى بندے كى توبہ سے بہت زيادہ خوش ہوتا ہے، حالانكہ وہ اس كى توبہ سے غنى ہے.

اس ليے اس شخص كو اپنے گناہ سے توبہ كرنى چاہيے، اور اس كو اپنے كيے پر شديد قسم كى ندامت بھى كرنا ہو گى اور عزم كرے كہ آئندہ وہ اس گناہ كا ارتكاب نہيں كريگا.

اور اس نے جو زنا كے بعد اس سے شادى كرنے كا عمل كيا ہے اس كے متعلق گزارش ہے كہ:

اگر تو اس نے اپنے اس فعل پر توبہ نہيں كى، اور نہ ہى اس عورت سے زانيہ كا نام دور ہوا ہے تو ان دونوں كا نكاح صحيح نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے كافر عورتوں ميں سے عفت و عصمت نہ ركھنے والى عورت سے شادى كرنا حرام كيا كيونكہ وہ عفت و عصمت كى مالك نہيں، حتى كہ اگر مرد نے خود توبہ كر لى ہو اور رجوع كر ليا ہو.

جيسا كہ ظاہر ہوتا ہے كہ اس نے ابھى تك توبہ نہيں تو پھر كيا حالت ہو گى؟!

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

سب پاكيزہ چيزيں آج تمہارے ليے حلال كى گئيں اور اہل كتاب كا ذبيحہ تمہارے ليے حلال ہے، اور تمہارا ذبيحہ ان كے ليے حلال ہے، اور پاكدامن مسلمان عورتيں اور جو لوگ تم سے پہلے كتاب ديے گئے ہيں ان كى پاكباز دامن عورتيں بھى حلال ہيں، جبكہ تم ان كے مہر ادا كرو، اس طرح كہ ان سے باقاعدہ نكاح كرو، يہ نہيں كہ علانيہ زنا كرو، يا پھر پوشيدہ بدكارى كرو، منكرين ايمان كے اعمال ضائع اور اكارت ہيں اور آخرت ميں وہ خسارہ پانے والوں ميں سے ہيں المآئدۃ ( 5 ).

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

قولہ: اور ان لوگوں كى پاكدامن عورتيں جنہيں تم سے قبل كتاب دى گئى .

ايك قول ہے كہ: اس سے آزاد پاكدامن عورتيں مراد ہيں لونڈياں نہيں، اسے ابن جرير نے مجاہد سے بيان كيا ہے، اور مجاہد كا كہنا ہے كہ: المحصنات: آزاد عورتيں ہيں، يہ بھى احتمال ہے كہ اس سے وہ مراد ہو جو اس نے بيان كيا ہے، اور يہ بھى احتمال ہے كہ آزاد سے مراد عفيف و پاكدامن عورتيں مراد ہيں، جيسا كہ ايك دوسرى روايت ميں مجاہد سے مروى ہے.

اور يہاں جمہور كا قول بھى يہى ہے، اور يہى بہتر ہے تا كہ اس ميں يہ جمع نہ ہو جائے كہ وہ ذمى بھى ہى اور اس كے ساتھ عفت و عصمت كى مالك بھى نہ ہو، تو اس طرح اس كى بالكل ہى حالت خراب ہو.

اور اس كے خاوند كے وہ كچھ حاصل ہو جو ايك مثال ميں كہا گيا ہے: ” حشفا و سوء كيلۃ ” يہ مثال اس كے ليے بيان كى جاتى ہے جس ميں دونوں غلط چيزيں جمع ہو جائيں.

آيت سے ظاہر يہ ہوتا ہے كہ محصنات سے مراد زنا سے پاك عفت و عصمت والى عورت ہے، جيسا كہ دوسرى آيت ميں ہے:

وہ عفت و عصمت كى مالك ہوں اور نہ تو اعلانيہ زنا كرنے والى ہوں اور نہ ہى پوشيدہ دوستياں لگانے والياں النساء ( 25 ).

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 3 / 42 ).

اور پھر يہ حكم صرف اہل كتاب كى كافر عورتوں كے ساتھ خاص نہيں، بلكہ يہ اسى طرح مسلمان عورت كو بھى اس وقت شامل ہو گا جب وہ زانيہ ہو.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے محصنات سے مراد عفت و عصمت والى ہونے كى وجہ سے آزاد عورتوں كا معنى كرنے كى مخالف نہيں كى كيونكہ احصان ميں عفت كا معنى پايا جاتا ہے اور انہوں نے اس كے متعلق بحث كرتے ہوئے آخر ميں لكھا ہے:

” اور جب اللہ سبحانہ و تعالى نے مسلمانوں اور اہل كتاب ميں سے صرف محصنات سے نكاح كرنا مباح كيا ہے، تو پھر زانيہ محصن نہيں اس ليے اللہ تعالى نے ان سے نكاح بھى مباح نہيں كيا ”

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 121 – 122 ).

اور شيخ عبد الرحمن السعدى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” اور فاجر قسم كى عورتيں جو عفت و عصمت كى مالك نہ ہوں ان سے نكاح كرنا مباح نہيں، چاہے وہ مسلمان ہوں يا پھر كتابى عورتيں، حتى كہ وہ توبہ نہ كر ليں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

زانى مرد زانى يا مشرك عورت كے علاوہ كسى سے نكاح نہيں كرتا .

ديكھيں: تفسير السعدى ( 221 ).

مزيد آپ سوال نمبر (85335 ) اور (96460 ) اور (104492 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اس ليے اس مسلمان شخص پر نكاح فسخ كرنا واجب ہے، اور اس كو چاہيے كہ وہ اس عورت سے دور ہو جائے، حتى كہ جب تك وہ دونوں توبہ نہيں كر ليتے، اور اگر وہ توبہ كر ليں تو پھر شرعى طور پر شادى كى شروط كى موجودگى ميں ان كا نكاح ممكن ہو سكتا ہے.

اس كے ساتھ ساتھ ہم ـ اگر نكاح فسخ كر كے توبہ كر لے ـ اس كو اس عورت سے شادى كرنے كى نصيحت نہيں كرتے چاہے وہ عورت توبہ بھى كر لے.

اور كتابى عورت كے ساتھ نكاح كرنے والے كے ليے جائز نہيں كہ وہ اس كتابى عورت كو اسلام قبول كرنے پر مجبور كرے، اور وہ شخص كتابى عورت كے ساتھ نكاح كرنے سے منافق شمار نہيں كيا جائيگا، چاہے كتابى عورت اپنے دين پر ہى باقى رہے، يہ مباح امر ہے.

ہم نے اہل كتاب كى عورتوں كے ساتھ مسلمان شخص كے نكاح كرنے ميں پيدا ہونے والى خرابيوں كا سوال نمبر (20227 ) كے جواب ميں تفصيلى بيان كيا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں، كيونكہ يہ اہم ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android