0 / 0
4,25310/11/2012

تين طلاق والى عورت عدت كہاں بسر كريگى ؟

سوال: 125813

بيٹے بيٹيوں والى تين طلاق يافتہ عورت اپنى عدت كہاں بسر كريگى ؟

آيا وہ ميكے ميں يا پھر خاوند كے گھر اپنے بچوں كے ساتھ عدت بسر كريگى ؟

يہ علم ميں رہے كہ عورت اپنے بچوں كے ساتھ رہتے ہوئے عدت بسر كرنا چاہتى ہے، عورت كو تين طلاق ہو چكى تھيں دوران عدت وہ پريشان تھى، دوران عدت خاوند اسے ملا تو اس نے بيوى سے معانقہ كيا اور كچھ دوسرے امور بھى سرزد ہوئے ليكن بوسہ اور جماع وغيرہ تك بات نہيں پہنچى، طرفين كى جانب سے اس گناہ كا كفارہ كيا ہے ؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

اگر خاوند اپنى بيوى كو طلاق بائن دے دے تو بيوى كو دوران عدت نہ تو نان و نفقہ كا حق حاصل ہوگا، اور نہ ہى رہائش كا، ليكن اگر بيوى حاملہ ہو تو پھر رہائش اور نان و نفقہ كى حقدار ہوگى.

طلاق بائن كى دو قسميں ہيں:

پہلى قسم:

بينونت صغرى:

يہ طلاق اس طرح ہوگى كہ رخصتى و دخول سے قبل ہى بيوى كو طلاق دے دى جائے، يا پھر طلاق عوض ہو ( يعنى طلاق كے مقابلہ ميں خاوند نے مال حاصل كيا ہو ).

دوسرى قسم:

بينونت كبرى:

يہ تين طلاق مكم ہونے كى صورت ميں ہوتى ہے:

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” جب خاوند اپنى بيوى كو تين طلاق دے دے جس ميں اسے رجوع كرنے كا حق حاصل نہ ہو، تو نہ بيوى كو رہائش كا حق حاصل ہوگا، اور نہ ہى نان و نفقہ ملےگا، ليكن اگر حاملہ ہو تود ونوں اشياء حاصل ہونگى ”

مجمل يہ كہ جب آدمى اپنى بيوى كو طلاق بائن دے دے تو وہ يا تو تين طلاق كے ساتھ ہوگى، يا پھر خلع ہونے كى صورت ميں، يا پھر فسخ نكاح كى بنا پر بائن كبرى ہو جائيگى، بيوى حاملہ ہو تو بالاجماع اسے نان و نفقہ اور رہائش كا حق ملےگا، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

انہيں تم اپنى استطاعت كے مطابق جہاں تم رہتے ہو رہائش دو، اور انہيں نقصان و ضرر مت دو كہ تم انہيں تنگ كرو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان پر خرچ كرو حتى كہ وہ حمل وضع كر ديں الطلاق ( 6 ).

اور فاطمہ بنت قيس رضى اللہ تعالى عنہا كى روايت ميں ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں كہا تھا:

” تمہيں نان و نفقہ كا حق حاصل نہيں، ليكن اگر حاملہ ہو تو پھر حق ركھتى ہو ”

اور اس ليے بھى كہ حمل خاوند كا بچہ ہے، اس ليے اسے اس كا خرچ برداشت كرنا ہوگا، اور بچے پر اسى صورت ميں خرچ كيا جا سكتا ہے جب حمل كى صورت ميں ماں پر خرچ كيا جائے، اس ليے يہ خرچ بالكل اسى طرح واجب ہوا جس طرح رضاعت كى اجرت واجب ہوتى ہے.

اور اگر وہ حاملہ نہيں تو اسے نان و نفقہ كا حق حاصل نہيں ہوگا.

ليكن اس صورت ميں رہائش كا حق ركھنے كے متعلق دو روايتيں ہيں:

پہلى روايت:

عمر بن خطاب، عبد اللہ بن عمر، اور ابن مسعود، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا، اور مدينہ كے فقھاء سبعہ، اور امام مالك امام شافعى رحمہ اللہ كے قول كے مطابق مندرجہ بالا آيت كے مطابق رہائش كا حق حاصل ہے.

دوسرى روايت:

على، ابن عباس، جابر رضى اللہ تعالى عنہم، اور عطاء، طاؤس، حسن، عكرمہ، ميمون بن مہران، اسحاق، ابو ثور داود ظاہر رحمہم اللہ كے قول كے مطابق اسے رہائش كا حق حاصل نہيں، اور نہ ہى نان و نفقہ حاصل ہوگا، ظاہر مذہب بھى يہى ہے.

اكثر عراقى فقھاء كرام كا كہنا ہے:

” اسے نان و نفقہ كا حق حاصل ہوگا، ابن شبرمہ، ابن ابى ليلى، ثورى، حسن بن صالح، ابو حنيفہ اور ان كے اصحاب، البتى، عنبرى رحمہم اللہ كا قول يہى ہے ” انتہى

ديكھيں: المغنى ( 8 / 185 ).

طلاق بائن والى عورت كو نان و نفقہ اور رہائش كا حق نہ ملنے كى دليل صحيح مسلم كى درج ذيل حديث ہے:

شعبى رحمہ اللہ كہتے ہيں، ميں فاطمہ بنت قيس رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس گيا اور اس سلسلہ ميں ان كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فيصلہ كے متعلق دريافت كيا تو وہ فرمانے لگيں:

” خاوند نے اسے طلاق بتہ دے دى، تو ميں نے نان و نفقہ اور رہائش كا مقدمہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس پيش كيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كے ليے نان و نفقہ اور رہائش نہ ہونے كا فيصلہ ديا، اور مجھے حكم ديا كہ ميں ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہ كے گھر ميں عدت بسر كروں ”

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1480 ).

اور ابو داود كى روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

” تمہيں حاملہ ہونے كى صورت ميں نان و نفقہ حاصل ہو گا ”

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

” ليكن دليل اور اس كے لزوم كے اعتبار سے امام احمد بن حنبل اور ان كے قول كا ساتھ دينے والوں كا قول زيادہ صحيح اور قابل حجت ہے؛ كيونكہ اگر اس كے ليے رہائش كا حق واجب ہو، اور يہ عبادت ہوتى كہ اس سے اللہ كى عبادت كى جاتى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اسے ضرور فاطمہ رضى اللہ تعالى عنہا پر لازم كرتے، اور اسے اس كے خاوند كے گھر سے نكال كر ام شريك اور نہ ہى ابن ام مكتوم رضى اللہ تعالى عنہما كے گھر رہنے كا حكم نہ ديتے…

جب يہ ثابت ہو چكا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فاطمہ بنت قيس رضى اللہ تعالى عنہا كو طلاق بائن ہونے كى صورت ميں فرمايا تھا:

” تمہيں نہ تو نان و نفقہ ملےگا، اور نہ ہى رہائش، بلكہ رہائش اور نان و نفقہ تو طلاق رجعى كى صورت ميں حاصل ہوتا ہے “

اس حكم كا تعارض كس چيز سے ہو سكتا ہے ؟ كيا نبى كريم صلى اللہ اللہ عليہ وسلم كا حكم اور فيصلہ اس كا متعارض ہو سكتا ہے، حالانكہ قرآن مجيد كے حكم مراد تو نبى كريم صلى اللہ عليہ ہى واضح كرنے والے ہيں، اور ايسا كوئى تعارض ہميں نظر نہيں آتا.

يہ سب كو معلوم ہے كہ قرآن مجيد كى سب سے زيادہ تفسير كا علم ركھنے والے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خود ہيں:

انہيں تم اپنى استطاعت كے مطابق رہائش ميں ركھو .

آيت كى تفسير نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے زيادہ كوئى دوسرا نہيں جانتا ” انتہى

ديكھيں: التھيد ( 19 / 151 ).

اور اگر خاوند دوران عدت اسے اپنے گھر ميں رہنے كى اجازت ديتا ہے تو كوئى حرج نہيں؛ ليكن شرط يہ ہے كہ وہ اس سے ہر اجنبى شخص كى طرح پردہ كريگى؛ كيونكہ وہ بائن ہو جانے كى وجہ سے اس كے ليے اجنبى بن چكا ہے.

ليكن اولى اور بہتر يہى ہے كہ بينونت كبرى والى عورت كو اپنے ميكے ميں عدت بسر كرنى چاہيے تا كہ فتنہ سے بچ سكے، جيسا كہ مذكورہ بالا سوال ميں ہوا ہے، كيونكہ شيطان تو برائى كو خوب بنا سنوار كر پيش كرتا ہے، اور دونوں كو برائى كى رغبت دلا كر غلط كام كى طرف لےجائيگا اور اس طرح وہ حرام كا ارتكاب كر بيٹھيں گے.

حالانكہ شيطان نے تو ان دونوں ميں عليحدگى كرانے كے ليے ايك دوسرے كو برا اور قبيح كہلوايا اور تين طلاق كروا ديں.

اس ليے عقلمندو تم عقل و ہوشمندى اختيار كرتے ہوئے عبرت حاصل كرو الحشر ( 2 ).

دوم:

بائنہ عورت كا اپنے سابقہ خاوند سے معانقہ كرنا ايك حرام عمل ہے، اسى طرح بعد ميں جو كچھ شرمگاہ كو ہاتھ لگانے والا عمل بھى حرام ہے، دونوں كو اس عمل سے توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور آئندہ ايسا نہ كرنے كا پختہ عزم كريں.

تين طلاق واقع ہو جانے كى صورت ميں دونوں كا ايك دوسرے سے اجنبى بن جانا كسى شخص پر مخفى نہيں، اس ليے وہ دونوں ايك دوسرے كو نہ تو ديكھ سكتے ہيں، اور نہ ہى چھو سكتے ہيں ايسا كرنا حرام ہوگا، تو پھر معانقہ اور جو كچھ آپ نے بيان كيا وہ كچھ كيسے كيا جا سكتا ہے ؟

وہ شخص اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں جب تك يہ عورت كسى دوسرے شخص سے نكاح رغبت كرنے كے بعد حلال نہ ہو جائے، اور يہ نكاح حلالہ نہ ہو، يعنى نيا نكاح جس شخص كے ساتھ كرے اس كے ساتھ ہميشہ رہنے كے ليے ہو صرف حلال ہونے كے ليے نہ ہو.

اور اگر وہ دوسرا شخص فوت ہو جائے يا پھر كسى سبب كے باعث اس كو چھوڑ دے تو پھر وہ پہلے خاوند سے دوبارہ نكاح كر سكتى ہے.

مزيد آپ سوال نمبر (14038 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android