0 / 0

كيا شوال كے چھ روزے قسم كے كفارہ كے روزوں سے شامل كيے جا سكتے ہيں ؟

سوال: 125811

ميرا اللہ كى قسم كے بارہ ميں سوال ہے وہ يہ كہ ميں نے اللہ كى قسم اٹھائى كہ ميں فلاں جگہ نہيں جاؤنگا، ليكن ايك ہفتہ بعد ميں اس جگہ چلا گيا اور فيصلہ كيا كہ ميں شوال كے چھ روزوں ميں قسم كے تين روزے ركھ لوں گا، كيا يہ قسم كا كفارہ شمار ہوگا يا نہيں ؟
اللہ تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

سوال دينے سے قبل ہم سائل كو اس كے مسئلہ ميں كئى امور پر متنبہ كرنا چاہتے ہيں كہ:

1 ـ اصل ميں مسلمان كو اپنى قسم كى حفاظت كرنى چاہيے كہ وہ ہر چيز پر قسم نہ اٹھاتا پھرے، كئى ايك امور ہيں جو اللہ كى قسم كے مستحق نہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اپنى قسموں كى حفاظت كرو المآئدۃ ( 89 ).

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اصل يہى ہے كہ كثرت سے قسم نہيں اٹھانى چاہييں كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اپنى قسموں كى حفاظت كرو .

بعض علماء كرام نے اس كى تفسير ميں كہا ہے كہ: يعنى كثرت سے قسميں مت اٹھاؤ، بلاشك و شبہ يہى اولى ہے، اور زبان كے ليے بھى زيادہ سليم ہے، اور برى الذمہ ہونے ميں بھى بہتر ہے "

ديكھيں: الشرح الممتع ( 15 / 117 ).

2 ـ آپ نے جس جگہ نہ جانے كى قسم اٹھائى تھى اگر تو وہ حرام جگہ تھى اور وہاں جانا شرعى طور پر حلال نہ تھا تو آپ كو اپنى قسم پورى كرنى چاہيے تھى اور وہاں نہيں جانا چاہيے تھا ليكن اگر وہاں جانا واجب تھا ـ مثلا صلہ رحمى يا قريبى رشتہ دار كو ملنا ـ تو آپ كے ليے يہ قسم توڑنى واجب تھى يعنى اگر وہاں جانا واجب تھا تو قسم توڑنى واجب تھى.

اور اگر وہاں جانا مستحب تھا تو قسم توڑنا مستحب تھى اور اگر وہاں جانا مباح تھا تو بھى قسم توڑنى مباح تھى، اس ليے آپ اپنے دين و دينا كى خير و بھلائى ديكھيں، اور اپنے پروردگار كا جس ميں زيادہ تقوى تھا اس كام كو كريں، اگر وہاں جانا بہتر اور زيادہ تقوى كا باعث تھا تو آپ وہاں جائيں اور اپنى قسم كا كفارہ ادا كريں، وگرنہ اپنے آپ كو وہاں جانے سے روكے ركھيں.

عبد الرحمن بن سمرۃ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر آپ كوئى قسم اٹھائيں اور ديكھيں كے اس كام كے علاوہ كوئى اور كام اس سے بہتر ہے تو آپ وہ كام كريں جو بہتر ہے اور اپنى قسم كا كفارہ ادا كر ديں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6343 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1652 ).

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كسى نے بھى قسم اٹھائى اور پھر ديكھا كہ اس كے علاوہ كوئى اور كام بہتر ہے تو وہ اپنى قسم كا كفارہ ادا كر كے وہ كام كر لے جو اس سے بہتر ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1650 ).

موسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

بر اليمين كا معنى ہے كہ اپنى قسم ميں سچائى اختيار كى جائے، اور جس پر قسم اٹھائى ہے اسے كيا جائے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اپنى قسميں پختہ كرنے كے بعد انہيں مت توڑو، حالانكہ تم نے اللہ سبحانہ و تعالى كو اس پر كفيل بنايا ہے، يقينا اللہ تعالى جاننے والا ہے جو تم عمل كرتے ہو .

واجب فعل پر واجب ہے يا پھر حرام ترك كرنے پر بھى واجب ہے، تو اس طرح اطاعت والى قسم كو پورا كرنا واجب ہے كہ جس پر قسم اٹھائى ہے اسے پورا كيا جائے، اور اس ميں قسم توڑنى حرام ہوگى.

ليكن اگر قسم واجب فعل ترك كرنے يا پھر حرام كام كرنے پر اٹھائى گئى ہو تو يہ قسم معصيت كى قسم ہوگى جسے توڑنا واجب ہے.

اگر كسى نے كسى نفلى كام كرنے پر قسم اٹھائى مثلا نفلى نماز يا نفلى صدقہ تو قسم پورى كرنا مندوب ہے، اور اس كى مخالفت كرنا اور توڑنا مكروہ ہوگا.

اور اگر كسى نے نفل ترك كرنے پر قسم اٹھائى تو قسم مكروہ ہوگى، اور اس پر قائم رہنا مكروہ ہوگا، سنت يہى ہے كہ يہ قسم توڑ دى جائے.

اور اگر كام مباح ہو تو قسم توڑنا مباح ہوگا، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب آپ قسم اٹھائيں اور پھر ديكھيں كے اس كے علاوہ دوسرا كام بہتر ہے تو آپ وہ كام كريں جو اس سے بہتر ہے اور اپنى قسم كا كفارہ ادا كر ديں " انتہى

3 ـ آپ كا يہ فيصلہ كہ قسم توڑنے كے بدلے تين روزے ركھيں گے يہ جائز نہيں، اور قسم ميں روزے ركھنے اسى صورت ميں جائز ہيں جب آپ دس مسكينوں كو كھانا كھلانے يا پھر انہيں لباس مہيا كرنے سے عاجز ہوں.

قسم كا كفارہ يہ ہے كہ دس مسكينوں كو كھانا كھلايا جائے يا پھر انہيں لباس مہيا كيا جائے، يا پھر ايك غلام آزاد كيا جائے، جو شخص يہ كچھ نہ پائے تو وہ تين روزے ركھے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى تمہارى لغو قسموں ميں تمہارا مؤاخذہ نہيں كريگا، ليكن مؤاخذہ اس ميں كريگا جو تم نے پختہ قسميں اٹھائيں ہيں، ان كا كفارہ يہ ہے كہ دس مسكينوں كو اوسط درجے كا كھانا كھلايا جائے جو تم اپنے گھر والوں كو كھلاتے ہو، يا انہيں لباس مہيا كيا جائے، يا ايك غلام آزاد كيا جائے، اور جو كوئى اسے نہ پائے تو وہ تين روزے ركھے، جب تم قسميں اٹھاؤ تو تمہارى قسموں كا كفارہ يہ ہے، اور اپنى قسموں كى حفاظت كرو، اسى طرح اللہ تعالى تمہارے ليے اپنى آيات بيان كرتا ہے تا كہ تم شكر ادا كرو المآئدۃ ( 89 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 45676 ) كے جواب كا مطالعہ بھى كريں.

دوم:

رہا يہ سوال كہ قسم كے كفارہ كے روزے شوال ميں ركھے جائيں اور انہيں شوال كے چھ روزوں ميں شمار كيا جائے جن كے بارہ ميں فضيلت آئى ہے كہ رمضان المبارك كے ساتھ اگر كوئى شوال كے بھى چھ روزے ركھتا ہے تو اس نے سارے سال كے روزے ركھے.

اس كے بارہ ميں ہم يہ گزارش كرتے ہيں كہ اگر آپ مسكينوں كو كھلانا كھلانے يا انہيں لباس مہيا كرنے سے عاجز ہونے كى بنا پر تين روزے ركھيں تو انہيں شوال كے چھ روزوں ميں شامل نہ كريں، كيونكہ نفلى اور واجب نيت ميں جمع كرنا جائز نہيں.

كيونكہ كفارہ كے روزے مخصوص ہيں جو مستقل نيت كے محتاج ہيں، جيسا كہ شوال كے چھ روزوں كا حال ہے، اس بنا پر آپ كا قسم كے كفارہ ميں تين روزے ركھنا شوال كے چھ روزوں ميں شامل نہيں ہوگا.

مستقل فتوى كميٹى كےعلماء كرام سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا شوار كے چھ روزے اور يوم عاشورا اور يوم عرفہ كا روزہ قسم كے روزوں كے ليے كافى ہو جائيگا، آدمى اسے شمار كرنے سے قاصر ہو چكا ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:

" قسم كا كفارہ يہ ہے كہ: ايك مومن غلام آزاد كيا جائے يا پھر دس مسكينوں كو كھانا ديا جائے، يا انہيں لباس مہيا كيا جائے، اور اگر وہ اس ميں سے كچھ نہ پائے تو ہر قسم كے تين روزے ركھے.

رہا يہ كہ آپ شمار نہيں كر سكتے كہ كتنى قسميں اٹھائيں تھيں، تو اس ميں آپ كے ليے ضرورى ہے كہ آپ انہيں شمار كرنے كى كوشش كريں اور تقريبى عدد لگا كر ان قسموں كا كفارہ ادا كريں جو توڑى گئى ہيں، ان شاء اللہ يہ كافى ہوگا.

يوم عاشوراء اور يوم عرفہ اور شوال كے چھ روزے قسم كے روزوں كے ليے كفايت نہيں كرينگے، ليكن اگر كوئى شخص ان ميں كفارہ كے روزوں كى نيت كر لے اور نفلى روزے كى نيت نہ ہو تو پھر ٹھيك ہے.

الشيخ عبد العزيز بن باز.

الشيخ عبد الرزاق عفيفى.

الشيخ عبد اللہ بن غديان.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 23 / 37 – 38 ).

فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

سائلہ كو ياد ہے كہ اس نے قسم اٹھائى اور وہ اس قسم كے كفارہ ميں تين روزے ركھنا چاہتى ہے، تو كيا اس كے شوال كے چھ روزوں كے ساتھ ركھنا جائز ہے كہ ميرے چھ روزے ہوں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اول:

جب كوئى شخص اپنى قسم توڑ دے تو اس كے ليے روزے ركھنے اسى صورت ميں جائز ہيں جب وہ ايك غلام آزاد كرنے يا پھر دس مسكينوں كو كھانا كھلانے يا انہيں لباس مہيا كرنے سے عاجز ہو؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تو اس كا كفارہ دس مسكينوں كو اوسط درجے كا كھانا كھلانا جو تم اپنے گھر والوں كو كھلاتے ہو، يا پھر انہيں لباس دينا، يا ايك غلام آزاد كرنا، اور جو شخص يہ نہ پائے تو وہ تين روزے ركھے، جب تم قسميں اٹھاؤ تو قسموں كا كفارہ يہ ہے .

اكثر عام لوگوں ميں يہ پھيل چكا ہے كہ جب كوئى اپنى قسم توڑے تو وہ كھانا كھلانے يا لباس مہيا كرنے يا غلام آزاد كرنے كى استطاعت ہونے كے باوجود تين روزے ركھے، يہ غلط ہے بلكہ روزے ركھنا تو اس صورت ميں جائز ہيں جب غلام آزاد كرنے يا كھانا كھلانے يا لباس مہيا كرنے كى استطاعت نہ ہو، يا پھر اسے كھانا كھلانے كے ليے مسكين ہى نہ مليں تو وہ مسلسل تين روزے ركھ سكتا ہے.

پھر اگر وہ تين روزے ركھنے والوں ميں شامل ہوتا ہے تو شوال كے چھ روزے كافى نہيں ہونگے، كيونكہ يہ ايك دوسرے سے كفائت نہيں كرتے اور ہر ايك مستقل عبادت ہيں، بلكہ ہر ايك عليحدہ ہيں، بلكہ وہ پہلے شوال كے چھ روزے ركھے، اور پھر ان چھ روزوں كے بعد قسم كے تين روزے ركھے.

ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 84 – 84 ).

اس ميں يہ شرط نہيں كہ يہ تين روزے تسلسل كے ساتھ ركھے جائيں، ہم اس كى تفصيل سوال نمبر ( 12700 ) ميں بيان كر چكے ہيں اس كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android