0 / 0
6,27925/06/2014

دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے شروع کئے اور درمیان میں ماہ رمضان آگیا تو کیا تسلسل ٹوٹ جائے گا؟

سوال: 124817

سوال: مجھے معلوم ہے کہ جس شخص نے رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی سے جماع کیا تو اسکا کفارہ دو ماہ کے روزے، یا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے۔۔، تو کیا دو ماہ مسلسل ہونے چاہئیں؟ اور ایسی صورت میں کیا حکم ہےکہ اگر روزے شروع کرنے کے بعد ماہِ رمضان درمیان میں آجائے تو کیا رمضان کے بعد جہاں سے روزے چھوڑے تھے وہیں سے دوبارہ شروع کئے جا سکتے ہیں ، یا نئے سرے سے مکمل روزے رکھنے ہونگے؟ اور ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانے کی صورت میں کیا انہیں یکبار کھلانا ضروری ہے؟

جواب کا متن

اللہ کی حمد، اور رسول اللہ اور ان کے پریوار پر سلام اور برکت ہو۔

اول:

جو شخص رمضان میں دن کے وقت جماع کرلے تو وہ گناہگار ہے، اور اس پر کفارہ بھی لازم ہے، جس میں ایک غلام آزاد کیا جائےگا، اگر میسر نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے جائیں گے، اور اگر اسکی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہوگا، ایسے شخص کو روزوں کی استطاعت رکھنے کی صورت میں کھانا کھلانے کی اجازت نہیں ہے۔

جماع کی وجہ سے کفارہ لازم ہونے پر صحیح بخاری (1936)کی حدیث دلیل ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہا: اللہ کے رسول! “میں تباہ ہوگیا”، آپ نے فرمایا: (تمہیں کیا ہوا؟) اس نے کہا: “میں نے روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے جماع کرلیا ہے”، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تمہارے پاس آزاد کرنے کیلئے کوئی غلام ہے؟) اس نے کہا: “نہیں”، آپ نے فرمایا: (کیا دو ماہ مسلسل روزے رکھنے کی استطاعت رکھتے ہو؟) اس نے کہا: “نہیں “، تو آپ نے فرمایا: (تو کیا ساٹھ مساکین کو کھانا کھلا سکتے ہو؟)۔۔۔۔ الحدیث۔

اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ دو ماہ کے روزے مسلسل ہونے چاہئیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کیا دو ماہ مسلسل روزے رکھنے کی استطاعت رکھتے ہو؟)

اور جو شخص روزے رکھنا شروع کردے ، اورپھر ماہ رمضان شروع ہوجائے ، تو وہ رمضان میں روزے رکھے، عید والے دن روزہ چھوڑ کر اسکے بعد دو ماہ کے روزے مکمل کر لے، ابتداء سے روزے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے؛ کیونکہ رمضان کے روزوں سے تسلسل میں انقطاع نہیں آئے گا۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

“جو شخص ظہار کے روزے ابتدائے شعبان سے شروع کرے، تو وہ عید کے دن روزہ نہ رکھے، اور اسکے بعد باقی روزوں کی تکمیل کرے، اسی طرح اگر کوئی شخص ذو الحجہ کی ابتداء سے روزے رکھنا شروع کرے تو درمیان میں قربانی کا دن اور ایام تشریق [عید الاضحی کے بقیہ دن]آنے سے روزوں کا تسلسل نہیں ٹوٹے گا، بلکہ گذشتہ روزوں کی بنیاد پر دو ماہ کے روزے مکمل کریگا

خلاصہ کلام یہ ہے کہ: اگر ظہار کے روزوں کے دوران ایسے دن آجائیں جن میں کفارہ کے روزے نہیں رکھے جاسکتے، مثال کے طور پر: ابتدائے شعبان سے روزے رکھے، تو درمیان میں رمضان اور عید کا دن آئے گا، یا پھر ابتدائے ذو الحجہ سے روزے رکھے تو قربانی اور ایام تشریق کے دن درمیان میں آئیں گے، تو ان کے آنے سے تسلسل میں انقطاع نہیں آئے گا، اور گذشتہ روزوں کی بنیاد پر بقیہ روزے مکمل کریگا” انتہی

“المغنی” (8/29)

دوم:

یکبار ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ضروری نہیں ہے، اس لئے قسط وار مختلف اوقات میں ساٹھ مساکین کی تعداد مکمل ہونے تک کھانا کھلا یا جا سکتا ہے۔

مزید وضاحت کیلئے سوال نمبر : (1672) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم .

ماخذ

الاسلام سوال و جواب

answer

متعلقہ جوابات

at email

ایمیل سروس میں سبسکرائب کریں

ویب سائٹ کی جانب سے تازہ ترین امور ایمیل پر وصول کرنے کیلیے ڈاک لسٹ میں شامل ہوں

phone

سلام سوال و جواب ایپ

مواد تک رفتار اور بغیر انٹرنیٹ کے گھومنے کی صلاحیت

download iosdownload android